تحریر: سید اعجاز اصغر
جنگ صفین میں لشکر اسلام کا مرکزی حصہ پہلے کی طرح اب بھی سپاہ دشمن کے قلب میں جنگ آزما تھا، حبیب بن مسلمہ کے سخت حملے کے باعث بائیں بازو کا پرہ( جناح راست ) پسپا ہو کر فرار ہونے لگا تھا تو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے مالک کو حکم دیا کہ ان فرار کرنے والوں کی جانب لپکے اور کئی مرتبہ پکار کر کہا کہ لوگو میں مالک ہوں لیکن کسی نے ان کی جانب توجہ نہ کی، جس کی وجہ یہ تھی کہ بیشتر لوگ انہیں اشتر کے نام سے جانتے تھے لہذا جس وقت انہوں نے کہا کہ میں مالک ہوں تو فرار کرنے والے واپس آنے لگے اور ان کے گرد جمع ہو گئے،
مالک نے اپنے زور بیان سے لوگوں کو دوبارہ جنگ و نبرد کے لیے آمادہ کر لیا اس کے بعد انہوں نے قبیلہ مذ حج کے افراد کو جو اپنی دلیری و جنگ جوئی میں مشہور تھے، خاص طور پر نبرد آزمائی کی دعوت دی، اور کہا کہ میدان کار زار میں اپنی مردانگی کے جوہر دکھائیں اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کریں ان سب نے ایک زبان ہو کر اپنی آمادگی کا اعلان کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم آپ کے فرمان بردار ہیں، طائفہ ہمدان کے سو افراد اور ان کے علاوہ دیگر چند دانشور اور باوفا لوگ مالک اشتر کی جانب واپس آگئے، اور اس طرح دوبارہ دائیں جانب کا پرہ مضبوط ہوگیا، ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ جس لشکر پر بھی حملہ آور ہوجاتے اسے نیست و نابود کر دیتے، چنانچہ ان کے سخت و شدید حملات کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ دشمن کو مجبور ہو کر پسپا ہونا پڑا،
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔