مئی 31, 2025

اے حاجیو دعا کرنا!  ( حصہ اول )

تحریر: سید اعجاز اصغر 

ذوالحجہ کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، فریضہ حج کی ادائیگی، قربانی، خاندان رسالت کی مصیبتوں کا تذکرہ منبر و محراب سے لیکر سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کا مرکز بن جاتا ہے،

کوئی شک نہیں کہ صاحب استطاعت پر حج فرض ہو جاتا ہے، حج بہت بڑی عبادت ہے، خوش نصیب ہیں جو اس فریضہ کو بجا لاتے ہیں،

مگر شرعی اعتبار سے  انسان حج پر جانے کی وجہ سے کوئی ایسا ناجائز کام کرنے پر مجبور نہ ہو جس کا ترک کرنا حج کرنے سے زیادہ اہم ہو یا کوئی ایسا واجب کام ترک نہ ہوتا ہو جو حج سے زیادہ اہم ہو، لیکن اگر اس حالت میں بھی حج پر انسان چلا جائے تو گناہ گار ضرور ہے مگر حج صحیح ہے،

میری دعا ہے کہ جو تمام شرعی معاملات کو پورے کرکے، حلال مال سے حج کے لئے روانہ ہو گئے ہیں، اپنے اپنے عزیز و اقربا جو مساکین، غریب اور یتیم ہیں ان کے تمام حقوق پورے کرکے بارگاہ الہٰی میں عازمین حج کی صف میں شامل ہو گئے ہیں ان کا یہ عظیم عمل اللہ تعالٰی قبول و منظور فرمائے  آمین  !

اگر مال حرام کے ذریعے حج کا ثواب لینا مقصود ہے، تو کتے کو ذبح کرکے اسے حلال گوشت گرداننے کے مترادف ہے، موجودہ دور میں حلال کمائی سے حج کرنا انتہائی مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے، تقریبا 25 لاکھ روپے کا حج پیکج تو بن چکا ہے، اب اس میں حلال کس کا حرام مال کس کا اللہ بہتر جانتا ہے اور اس  کی مخلوق بھی تھوڑا بہت درک کر جاتی ہے کہ حاجی صاحب کو واپسی پر مبارکباد دینی ہے یا نہیں  ؟

آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے کی بات ہے جب ہم بچپن میں ہوتے تھے کہ اگر کسی شخص نے حج پر جانا ہوتا تھا تو پورے گاؤں کے لوگوں کو اس کے گھر میں الوداعی کھانے کی دعوت دی جاتی تھی اور پرتپاک انداز سے حج پر روانہ ہونے والے شخص کو نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے تھے اور اس کے ہاتھ میں سو یا دو سو روپے بھی دیئے جاتے تھے، جب حاجی واپس آتا تو پورے گاؤں کے لوگ عزت و آبرو کے ساتھ اس حاجی کی زیارت کے لئے  جوق در جوق اس کی رہائش گاہ میں جاتے، مگر اب اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نہ تو روانگی کی خبر ہوتی ہے اور نہ ہی واپسی کی خبر ہوتی ہے، اگر درمیان والے دنوں میں کوئی پوچھ ہی لے کہ فلاں صاحب آج کل نظر نہیں آرہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں ابن فلاں تو عمرے، حج یا زیارات پر روانہ ہوگئے ہیں، سننے والا مصلحت کے تحت اندر ہی اندر خاموش ہو جاتا ہے یا منافقانہ انداز میں خوشامدی بن کر خوشی کا اظہار کر ہی لیتا ہے، بہت کم دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ یا ایران و عراق کے حاجیوں اور زائرین کی  مشرف بہ زیارت کے لئے دیدہ ور نکل آئیں،

عبادت چاہے حج کی ہو یا نماز روزے کی ہو، خلوص، خشوع و خضوع، نیک نیتی کا فقدان پیدا ہو چکا ہے، مال حرام کی فراوانی نے تمام عبادات کو محض رسم و رواج اور ظاہری طور پر رعب دبدبے اور اپنی امارت دکھانا مقصود ہو گیاہے ،

جناب پیغمبرِاسلام محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسجد دیکھی تو اس مسجد کی تعمیر کنگرو سے کی گئی تھی، تو سرکار دو عالم نے کنگرے ہٹانے کا حکم دیا، انتہائی سادہ تعمیر کی ہدایت کی، کیوں  ؟

جو شخص شیطان سے صحیح سالم رہنا چاہتا ہے وہ اپنے نفس سے جہاد کرے، اس سے اس طرح حساب و کتاب کرے جیسے ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے،

جاری ہے،

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

two + 9 =