تحریر: سید اعجاز اصغر
سن 60 ہجری کا حاجی جس نام حسین ابن علی علیہم السّلام ہے کو معلوم ہوا کہ یزید نے عمر سعد کو سپاہیوں کی ایک تعداد کے ساتھ امیر کارواں بنا کر مکہ کی طرف بھیجا ہے اور اسے وصیت کی ہے کہ اسے( امام حسین علیہ السّلام ) کو جہاں پاو قتل کر دو، تو امام حسین علیہ السّلام نے ارادہ کیا کہ اعمال حج کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے مکہ سے روانہ ہو جائیں، لہذا امام حسین علیہ السّلام نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور خانہ خدا کی حرمت کو محفوظ رکھنے کے لئے مکہ سے روانہ ہو گئے، فرمایا میری قتل گاہ معین ہو چکی ہے، وہاں تک پہنچ جاؤں گا ،موت ہر انسان کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے جوان لڑکیوں کے لئے ہار، میں اسلاف کا دیدار کرنے کے لئے اس قدر مشتاق ہوں جیسے حضرت یعقوب، حضرت یوسف علیہ السلام کے دیدار کے مشتاق تھے ،گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں سرزمین نوا ویس اور کربلا کے درمیان وحشی درندے میرے بدن کے اعضا چیر پھاڑ کر اپنے خالی شکم بھر رہے ہیں، ،جس پر خدا راضی ہے ہم بھی اس پر راضی خوشنود ہیں، جو کچھ خدا نے مقرر کیا اس سے فرار نہیں،
امتحان اور آزمائش کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیں گے اور وہ ہمیں صابرین کا اجر عطا کریگا،
پیغمبر خدا اور ان کے پارہ تن کے درمیان ہرگز جدائی نہیں ہوگی، بلکہ تمام کے تمام بہشت بریں میں ان کے کی بارگاہ میں حاضر ہونگے، کیونکہ وہ نور چشم پیغمبر اور ان کے وعدوں کے متحقق ہونے کا وسیلہ ہیں،
جاری ہے