تحریر: سید اعجاز اصغر
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر میں ہمارے ملک کا ہر خاص وعام آدمی 75 سالہ پاکستان کے حکمرانوں کے طرز عمل سے نہ صرف نالاں ہے بلکہ مایوس بھی ہے، ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ عوام ہی دراصل طاقت کا سرچشمہ ہے مگر اس طاقت کے سر چشمے کو تقریبا سات دھائیوں سے مغلوب ، مظلوم اور مرعوب بنا دیا گیا ہے،
اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے آواز خلق نقارہ خدا است کے تحت حضرت یوسف علیہ السلام کی طرز حکمرانی کا سہارا لے کر اتمام حجت کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام اندھے کنویں سے نکل کر عزیز مصر کی جیل کاٹنے کے بعد اپنے کردار و افعال کو بادشاہ اور اس کی رعیت کے سامنے پیش کر کے قیامت تک کے حکمرانوں کو درس دیا کہ حکمرانی کے اصول جو اللہ تعالٰی کے نبیوں اور رسولوں نے وضع کئے ہیں ان سے استفادہ کرنا ہی باعث نجات ہے ورنہ نمرود ، فرعون، یزید جیسے سرکش، متکبر، ظالم اور بے رحم حکمرانوں کا زوال تو تا قیام قیامت باعث عبرت بن چکا ہے،
حضرت یوسف علیہ السلام نے پہلے ایک سال تک وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تاکہ تہی دست لوگوں کو مفلسی و غربت سے نجات دلائیں، اس وجہ سے انہوں نے بادشاہ سے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب علم بھی ہوں،
جناب ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر سے خود یہ نہ کہتے کہ مجھے وزارت خزانہ کا قلم دان سونپا جائے تو وہ اسی وقت پورے ملک کے اختیارات جناب یوسف نبی کے سپرد کر دیتا، حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک سال تک فرائض منصبی انجام دیئے، اس کے بعد بادشاہ مصر نے جناب یوسف نبی کی خواہش کے مطابق پورے ملک کے اختیارات ان کے سپرد کر دیئے، اور مخصوص حکومتی شمشیر بھی ان کے خوب صورت تن بدن پر حمائل کردی انھیں مخصوص تخت بادشاہی پر بٹھایا جو سونے اور جواہرات سے مزین تھا،
حضرت یوسف علیہ السلام نے سات سال حکومت کی، قحط سالی سمیت دیگر امور کو بااحسن انداز میں نبھایا، معاملات کے ردوبدل اور ملکی اقتصادی نظام کو چلانے کی خاطر بازار تجارت کو رونق بخشی اور لوگوں کو مالی فائدے پہنچائے،
حضرت یوسف علیہ السلام کی مدبرانہ پالیسیوں اور طرز حکمرانی کی وجہ سے عوام کی زبان پر تھا کہ ہم نے آج تک ایسا حکمران نہیں دیکھا، لیکن حضرت یوسف نبی میں اس بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود ذرا برابر تکبر نہ تھا، وہ اخلاق، انکساری اور عدالت کا مجسمہ تھے،
منقول ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط سالی کے سات سالوں میں سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا، لوگ ان سے کہتے ملک کا تمام خزانہ آپ کے ہاتھ میں ہے پھر بھی آپ کیوں سیر ہو کر کھانا نہیں کھاتے ؟
تو آپ علیہ السلام جواب میں فرماتے کہ مجھے خوف ہے کہ سیر ہو کر کھاوں تو کہیں بھوکوں کو نہ بھول جاؤں،
اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام علیہم السّلام کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے تاکہ ہم اقتدار کے نشے میں خاکی انسان نمرودی، فرعونی اور یزیدی نہ بن جائیں،
انتہائی افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرز حکمرانی غیر مسلموں اور دیگر مسلم ممالک کے سامنے ناقابل بیان ہے،
ستمبر 2010 میں پاکستان میں سیلاب آیا تو اقوام متحدہ کی سفیر مشہور اداکارہ انجلینا جولی پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تاکہ پاکستان کی امداد کا تعین کیا جائے ۔
واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی ، رپورٹ میں چند اہم باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے حکومت کے بااثر افراد سیلاب سے متاثرین کو دھکے دیکر کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے ۔
اس نے کہا کہ مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں وہ بہت بے چین ہیں چاہتا ہوں کہ ان کی بے چینی دور کروں ، میرے انکار کے باوجود وزیراعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کیلئے ایک خصوصی طیارے میں اسلام آباد آئی اور میرے لئے قیمتی تحائف بھی لائی ، وزیراعظم کی فیملی نے میرے لئے کئی اقسام کے طعام میں میری دعوت کی ، ڈائننگ ٹیبل پر انواع اقسام کے کھانے دیکھ کر مجھے شدید رنج اور دکھ ہوا کہ ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور یہ کھانا کئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیکر ہماری ٹیم سے حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف بھوک ، غربت اور بد حالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس اور کئی سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت ، ٹھاٹھ باٹھ ، حکمرانوں کی عیاشیاں تھیں ، یہ طرز عمل اہل یورپ کو حیران کرنے کیلئے کافی تھا۔