تحریر: اختر عباس اسدی
فرزندِ رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام ابن امام علی رضاعلیہ السلام کی دنیا میں آمد 10رجب المرجب 195ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔آپ کےوالدہ ماجدہ کانام سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہے۔
دنیامیں تشریف آوری کےبعد امام محمد تقی علیہ السلام کوجب انکےوالدامام علی رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیاتوانہوں نے فرمایا:
هٰذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه
یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔
امام رضاعلیہ السلام کی شہادت کےبعدآٹھ سال کی عمرمیں منصبِ امامت سنبھالا۔۔اوراپنےفرائض منصبی ادافرمائے۔
کل حیاتِ طیبہ پچیس سال تھی جبکہ امامت کادوراٹھارہ سال تھا
مدينة العم اورباب العلم کی اولاد ہونےکےناطےبہت زیادہ علمی مناظرےکئےجن میں توحیدِ پروردگار کےساتھ قرآن اوراحکام قرآن ،احادیث نبوی کامضبوط دفاع کیا۔
زرقان،جو ابن ابی داؤد(مامون، معتصم، واثق اور متوکل عباسی کے دور خلافت میں بغداد کا قاضی تھا) کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلق رکھتا تھا، کہتا ہے: ایک دن “ابن ابی داؤد” معتصم کی مجلس سے واپس آئے، جبکہ وہ بہت افسردہ اور غمگین تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا: آج میں نے خواہش کی کہ کاش میں بیس سال پہلے مر جاتا! میں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: معتصم کے مجلس میں میں ابو جعفر امام محمدتقی علیہ السلام نے جو کچھ میرے ساتھ کیا۔ میں نے کہاکیا ہواتھا؟ اس نے کہا: ایک شخص نے چوری کا اقرار کیا اور خلیفہ (معتصم) سے کہا کہ اسے دین کے دستور کے مطابق سزا دے تا کہ وہ اس گناہ سے پاک ہو ۔ خلیفہ نے تمام فقہاء کو جمع کیا اورامام محمدتقی الجواد علیہ السلام کو بھی بلایا اور ہم سے پوچھا: چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ میں نے کہا: کلائی سے۔ فرمایا: اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: کیونکہ تیمم کی آیت میں ہاتھ کا معنی یہ ہے:
فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اپنے چہرے اورہاتھوں کا مسح کر لو۔
فقہاء کی ایک جماعت نے اس بات پر مجھ سے اتفاق کیا اور کہا: چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے، لیکن دوسرے گروہ نے کہا: کہنی سے کاٹنا ضروری ہے، اور معتصم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا:وضو کی آیت میں ہاتھ سے مراد کہنیوں تک ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے: يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اًّلىَ الْمَرافِقِ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو ۔
بادشاہ معتصم امام محمدتقی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور آپ سے پوچھا:
اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟معتصم نے اصرار کیا اور قسم کھائی کہ آپ اپنی رائے بتائیں۔
امام محمدتقی علیہ السلام نے فرمایا: جوبتایاگیایہ سب باتیں غلط ہیں اورچور کی صرف انگلیاں کاٹ دیں اور باقی ہاتھ رکھ دیں۔
معتصم نے کہا: اس کی کیا دلیل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا:کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سجدہ جسم کے سات حصوں کے ذریعے کیا جاتا ہے :
۱۔ چہرہ (پیشانی)
۲۔ دو ہتھیلیاں
۳۔ دو گھٹنے
۴۔ پاؤں کی دو بڑی انگلیاں۔
لہٰذا اگر چور کا ہاتھ کلائی یا کہنی سے کاٹ دیا جائے تو سجدہ کرنے کے لیے اس کا کوئی ہاتھ باقی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔اور جو خدا کے لئے ہے وہ قطع نہیں ہوگا۔
“ابن ابی داؤد” کہتے ہیں: معتصم کو امام محمدتقی علیہ السلام کا جواب پسند آیا اور اس نے حکم دیا کہ چور کی انگلیاں کاٹ دی جائیں، اور سامعین کے سامنے ہماری بے عزتی ہو گئی ، اور شرم و حیا کی وجہ سے وہی پر ہی میں نے موت کی تمنا کی۔
مامون نے امام محمد تقیؑ کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔
عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام محمدتقی علیہ السلام کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔
مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم نے کیا اور پوچھا:
اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟
آپ نے جواب میں فرمایا:
اے یحییٰ : تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟ اس نے عمدا ًاس جانور کا شکار کیا تھا یا سہواً اس سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟ شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ رات کو چھپ کراس نے شکار کیا ہےیا اعلانیہ طور پر؟احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی ٰکے چہرہ پر شکستگی کے آثار نمودار ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام محمدتقی علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔
امام ؑنے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ احکام بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد “حل” میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں ۔اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ۔ یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منیٰ میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمداً شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ۔ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے۔ آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔
اس کے بعد امام محمدتقی علیہ السلام نے یحییٰ بن اکثم سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے تو حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاؤ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔
امام علیہ السلام کی زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسولؐ آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :
وہ عورت کسی کی کنیز تھی۔اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی تو حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما ءنے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔
آپ کی علمی قابلیت کودیکھ کرحاسدین نےنورِ ولایت کوبجھانےکےلئےام فضل بنت مامون رشیدکوراضی کیااوراس کےذریعہ امام محمدتقی علیہ السلام کوزہردی گئی۔۔تین دن تک زہرکےاثرسے تڑپے29ذیقعد220ھ کوپچیس سال کی عمرمیں شہادت ہوئی آپ کےبیٹےامام علی نقی علیہ السلام نےتجہیزوتکفین کےبعدنمازِ جنازہ پڑھائی اوراپنےداداامام موسی کاظم علیہ السلام کےپہلومیں دفن ہوئے۔
امام محمدتقی علیہ السلام کی مزارمقدس اورحیاتِ طیبہ آج بھی امت مسلمہ کےلئےذریعہ رشدوہدایت اورذریعہ نجات ہے۔۔جن پہ اللہ تعالیٰ اورملائکہ درودبھیجتےہیں اورہمیں بھی درودبھیجنےکاحکم ہے
جن کی محبت واطاعت کاحکم قرآنی ہے ہےجن کاقول دفعل دین ہےجواللہ کی حجت ہیں اورجوچراغ اللہ نےامت کی ہدایت کےلئےروشن فرمائےان میں سےنواں چراغ بدنصیب امت نے بجھادیا۔