تحریر: قمرعباس
گیارہ فروری کو ایران میں آزادی و حریت کی تحریک کامیاب ہوئی ۔دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی تبدیلی رونما ہو جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی ہو تو یہ تبدیلی رکتی نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات اردگرد کے علاقوں میں بھی پھیل جاتے ہیں۔انقلاب اسلامی ایران نے ایران پر صدیوں سے قائم ایک ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں دنیا کی ظالم ترین خفیہ ایجنسی ساواک مکمل وسائل کے ساتھ بادشاہ کے ساتھ تھی۔اس کا نیٹ ورک دیہات تک میں موجود تھا اور اس کے کارندوں کو مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ماہرین سے خصوصی تربیت دلوائی گئی تھی تاکہ عوامی جدوجہد کو کچل دیا جائے۔جب عوام کی بڑی تعداد دل و جان سے کسی تحریک کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکتی۔یہی ہوا ،وہ خمینی جسے سترہ سال پہلے ظالمانہ انداز میں جلاوطن کر دیا گیا تھا وہ تہران کی طرف پرواز کرنے والا تھا اور وہ شاہ جو زمین پر خدا بنا بیٹھا تھا بڑا بے آبرو ہو کر تہران سے بھاگ چکا تھا۔پورا تہران شاہ رفت، امام آمد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔یہ اس بات کا اعلان تھا زمین پر کوئی کتنا بھی ظالم و جابر کیوں نا ہو ،جب خدائی نظام حرکت میں آتا ہے تو تمام طاقت تار عنکبوت ثابت ہوتی ہے ۔وہی شاہ جو خطے میں امریکی پولیس مین تھا دنیا میں مارا مارا پھر رہا تھا اور کوئی ملک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔آخر میں جلاوطنی کی زندگی میں ہی دنیا سے رخصت ہوا ۔
امام خمینی نے ایران کے پورے نظام کو بدل دیا۔انہوں نے اسلامی جمہوریہ قائم کیا یعنی نظام تو اسلامی ہے مگر اس کی بنیاد جمہوریت پر ہے۔آپ نے یہ خود سے نہیں کر دیا بلکہ اس کے لیے عوامی ریفرنڈم کرایا تاکہ عوام کی رائے معلوم ہو سکے۔۹۸ فیصد لوگوں نے یہ رائے دی کہ ہم اپنے ملک کو جمہوری اسلامی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔جب یہ طے ہو گیا کہ ایران میں اسلامی نظام نافذ ہو گا تو امام خمینی نے اکثریت کی فقہ سب پر لاگو نہیں فرمائی بلکہ ایران میں موجود تمام اسلامی مسالک کے لوگوں کو ان کی فقہ کے مطابق فیصلوں کی آزادی دی۔ریاست نے مساجد و مدارس کا مربوط نظام تشکیل دیا اس کی بنیاد مسلک پر نہیں رکھی بلکہ تمام مساجد و مدارس کو اس کا حصہ بنایا گیا۔پورے ملک کی مساجد کے لیے یکساں سہولیات اور مدارس کے لیے یکساں مراعات کا نظام بنایا گیا۔تمام مسالک پوری آزادی دی گئی اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں کبھی فرقہ ورانہ فسادات یا مسلکی شناخت کی وجہ سے کوئی مسائل پیش نہیں آئے۔مسلمانوں کے درمیان وحدت کا یہ بہترین ماڈل ہے۔
امام خمینی نے امت مسلمہ کے مسائل کا حل وحدت امت بتایا۔امام خمینی بار بار قضیہ فلسطین کا ذکر کرتے ہیں اور مسلمان حکمرانوں کو جھنجھوڑتے ہیں کہ ہمارا قبلہ اول صیہونیوں کے قبضے میں ہے اور ہم سکون کی نیند سو رہے ہیں۔امام خمینی نے ایران کی خارجہ پالیسی کے اہم ترین اصولوں میں سے ایک اصول آزادی فلسطین کو قرار دیا۔آپ نے فرمایا اس کی جو بھی قیمت ہمیں ادا کرنی پڑے ہم کریں گے۔اسی لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا ایران کی دشمن بنی ہوئی اس کے پیچھے وجہ ایک ہی ہے کہ ایران فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے۔ ہر اس شخص کی حمایت کرتا ہے جو فلسطین کی آزادی کے لیے کوئی کام کر رہا ہو۔ آج اسرائیل کے گردتین طرف سے ایک مزاحمتی بلاک معرض وجود میں آ چکا ہے جس نے فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔فلسطین میں حماس جیسی طاقتور تنظیم موجود ہے جو اسرائیلی مظالم کو روک رہی ہے اور اسرائیلی فورسز پر اسرائیل کے اندر تک حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اگر لبنان کی طرف سے دیکھیں تو اسرائیل بیروت تک پر قابض تھا مگر وہاں کی مزاحمتی قوتوں نے اسرائیل کو پورے لبنان سے نکال باہر کیا ہے اور اپنے ملک کو آزاد کرا لیا ہے۔اب حزب اللہ دیگر فورسز اہل فلسطین کی حمایت کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار نظر آتی ہیں۔یہ امت کو ایک جم میں پرونے کا عملی اظہار ہے۔
امام خمینی کا ایک بڑا کارنامہ ہفتہ وحدت کا آغاز ہے جسے ایران میں سرکاری طورپر منایا جاتا ہے اور اب پوری دنیا میں اس حوالے سے تقریبات ہوتی ہیں ۔اس کا بیک گراونڈ بڑا دلچسپ ہے امام خمینی کو بتایا گیا کہ رسول اکرمﷺ کی ولادت کے حوالے سے اختلاف ہے امت کا ایک گروہ بارہ ربیع الاول کو مناتا ہے اور دوسرا سترہ ربیع الاول کو مناتا ہے اب کس تاریخ کو سرکاری طور پر یہ دن منایا جائے؟اب جس گروہ کے نظریہ کے مطابق تاریخ رکھی جائے گی وہ تو راضی ہوگا دوسرا ناراض ہو جائے گا ۔آپ نے فرمایا کہ اللہ کے آخری نبیﷺ کی صورت میں ہم پر وہ احسان عظیم ہوا ہے کہ ہم پوری زندگی بھی اللہ کا شکرا دا کریں تو وہ کم ہے،اس لیے ہم پورا ہفتہ خاتم الانبیاءﷺ کی آمد پر خوشیاں منائیں گے اور اسے ہفتہ وحدت کا نام دیا یعنی مسلمانوں کو باہمی جوڑنے والا ہفتہ ۔امام خمینی نے فرمایا تھا کہ تم ہاتھ باندھنے اور کھولنے پر لڑ رہے ہو اور تمہارا دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی تدبیریں کر رہا ہے۔آج اسی وحدت امت کی فکر کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ امت اپنی عظمت رفتہ کو پا سکے۔