اگست 27, 2025

تحریر: قادر خان یوسفزئی

ایران آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی تاریخ، اس کی جغرافیائی سیاست، اور اس کی قومی شناخت ایک امتحان سے گزر رہی ہے۔جون 2025 کی بارہ روزہ جنگ جو اس نے اسرائیل کے ساتھ لڑی، اور اس کے بعد امریکی فوجی مداخلت نے اسے ایک نئے چیلنج سے دوچار کیا۔ یہ جنگ ایران کے لیے ایک بڑا امتحان تھی۔ شام میں اسد حکومت کا خاتمہ ایران کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ شام نہ صرف ایران کا واحد ریاستی اتحادی تھا بلکہ اس کی ”محور مقاوت” کا ایک اہم ستون بھی تھا، جو لبنان میں حزب اللہ کو ہتھیاروں کی ترسیل کا بنیادی راستہ فراہم کرتا تھا۔ اسد حکومت کے خاتمے نے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو شدید نقصان پہنچایا، اور اس کی جغرافیائی رسائی کو بنیادی طور پر عراق اور یمن تک محدود کر دیا۔ لیکن کیا یہ تنہائی ایران کی کمزوری کی علامت ہے، یا اس کی استقامت کی ایک نئی کہانی کا آغاز؟ ایرانی قیادت اسے ایک عارضی دھچکے کے طور پر دیکھتی ہے، اور اس کی تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ مشکلات سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا ہے۔

ایران کا جوہری پروگرام اس کی خارجہ پالیسی اور عالمی ساکھ کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ جون 2025 کے حملوں کے بعد، جب امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، ایرانی حکام نے اسے محض پروپیگنڈا قرار دیا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی رپورٹس بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ ایران کے جوہری ڈھانچے کو نقصان ضرور پہنچا، لیکن اس کی بنیادی صلاحیت اب بھی برقرار ہے۔ ایران کے پاس تقریباً 400 کلوگرام 60 فیصد خالصیت والا افزودہ یورینیم موجود ہے، جو اگر مزید افزودہ کیا جائے تو نو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ نتانز، فوردو، اور اصفہان کی تنصیبات کو نقصان پہنچا، لیکن ایران کی تکنیکی مہارت اور اس کے سائنسدانوں کی قابلیت اب بھی اسے بازسازی کی صلاحیت دیتی ہے۔ IAEA کے ڈائریکٹر رفائل گروسی نے خود تسلیم کیا کہ ایران چند مہینوں میں اپنی افزودگی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ ایران کے نقطہ نظر سے، یہ جوہری پروگرام اس کی خودمختاری اور قومی سلامتی کا ایک ناقابل سمجھوتہ حصہ ہے۔ عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود، ایران اس پروگرام کو اپنی دفاعی حکمت عملی کا بنیادی ستون سمجھتا ہے، اور اسے ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

عالمی سطح پر ایران کی سفارتی تنہائی کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ واقعات نے اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔ روس اور چین، جو ایران کے روایتی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، روس، جو اپریل 2025 میں ایران کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کر چکا تھا، نے اسرائیلی حملوں کے بعد اپنی ترجیحات کو واضح کیا جب اس کے صدر نے ایرانی قیادت سے رابطے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم سے بات کی۔ چین نے بھی اپنی محتاط سفارتی پوزیشن برقرار رکھی۔ یورپی طاقتوں کے ساتھ ایران کے تعلقات بھی کشیدہ ہیں، اگرچہ جولائی 2025 میں E3 (برطانیہ، فرانس، جرمنی) کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایران اس تنہائی کو عالمی سامراجی طاقتوں کی سازش کے طور پر دیکھتا ہے، جو اس کی خودمختاری کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایرانی قیادت کا موقف ہے کہ یہ تنہائی اس کی استقامت کا امتحان ہے، اور وہ اسے سفارتی ذرائع سے اپنی شرائط پر حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

معاشی طور پر، ایران کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایرانی ریال کی قدر تاریخی کمزوری کی سطح پر پہنچ چکی ہے، جو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک ملین سے زیادہ پر تجارت کر رہا ہے۔ افراط زر کی شرح 43 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، اور 2025 میں اس کے 43.3 فیصد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ متوسط طبقہ معاشی دباؤ کا سب سے زیادہ شکار ہے، جس کی خریداری کی طاقت شدید متاثر ہوئی ہے۔ امریکی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو گھٹنوں کے بل لانے کی کوشش کی ہے، اور 2025 کے لیے معاشی ترقی کی شرح صرف 0.3 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو 2024 کے 3.5 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اس کے باوجود، ایران نے اپنی معیشت کو گھریلو ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہوئے چلانے کی کوشش کی ہے، جو اس کے موجودہ اخراجات کا 73 فیصد پورا کر رہے ہیں۔ ایرانی قیادت اس معاشی بحران کو ایک وقتی امتحان سمجھتی ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی خودکفالت کی پالیسیوں کے ذریعے اس سے نکل آئے گی۔

ایران کا ”محور مقاوت”، جو اس کی علاقائی طاقت کا ایک اہم ستون تھا، حالیہ تنازعات میں شدید متاثر ہوا ہے۔ شام میں اسد حکومت کا خاتمہ، لبنان میں حزب اللہ کی کمزوری، غزہ میں حماس کی صلاحیتوں کا نقصان، اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں پر دباؤ نے اس نیٹ ورک کو کمزور کیا ہے۔ لیکن یمن میں حوثی اب بھی ایران کے پراکسی نیٹ ورک کا ایک مضبوط حصہ ہیں، جو بحیرہ احمر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایران اسے اپنی اسٹریٹجک گہرائی کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کا ماننا ہے کہ اس کے اتحادی اب بھی اس کی طاقت کا مظہر ہیں۔ عالمی تجزیہ کار ایران کے پراکسی ماڈل کی خامیوں کی بات کرتے ہیں، لیکن ایرانی نقطہ نظر سے یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو اسے براہ راست جنگ سے بچاتی ہے اور اسے علاقائی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔

فوجی طور پر، ایران کو جون 2025 کے تنازع میں شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بیلسٹک میزائل لانچرز کا دو تہائی حصہ تباہ ہوا، اس کی فضائی دفاعی صلاحیت کو شدید دھچکا لگا، اور اس کے کلیدی فوجی رہنما ہلاک ہوئے۔ لیکن ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کی فوجی صلاحیت اب بھی برقرار ہے، اور وہ اپنی دفاعی طاقت کو دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی قیادت اسے ایک عارضی دھچکے کے طور پر پیش کرتی ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی فوج اپنی قوم کے دفاع کے لیے ہر حال میں تیار ہے۔مذاکراتی محاذ پر، ایران نے ہمیشہ اپنی خودمختاری کو ترجیح دی ہے۔ عمانی ثالثوں کے ذریعے امریکی مذاکرات معطل ہو چکے ہیں، اور یورپی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایران کا موقف واضح ہیکہ وہ کوئی بھی معاہدہ اپنی شرائط پر کرے گا، اور وہ اپنی جوہری صلاحیت کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری پالیسی میں ”تبدیلیوں“ کی بات کی ہے، لیکن اس کی تفصیلات واضح نہیں کیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ سفارتی حل کے لیے تیار ہے، لیکن وہ اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

ایران کے لیے تین ممکنہ منظرنامے ہیں، یا تو وہ موجودہ تنہائی میں رہے گا، یا وہ سفارتی کوششوں سے دوبارہ عالمی نظام میں شامل ہوگا، یا پھر وہ مزید تصادم کی طرف جائے گا۔ ایرانی قیادت تیسرے منظرنامے سے بچنا چاہتی ہے، لیکن وہ اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ ایک ایسی طاقت ہے جو اپنی جڑوں سے جڑی ہوئی ہے، اور اس کی قوم اپنی تاریخ سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × three =