نومبر 18, 2024

ایران کا اسرائیل پر حملہ ۔۔۔؟

تحریر: عمر فاروق

ایرانی میزائل جب بھی مسلمان ممالک میں گرتے ہیں توتباہی مچاتے ہیں جانی ومالی نقصان کرتے ہیں مگریہی میزائل جب امریکی اوراسرائیلی اہداف کونشانہ بناتے ہیں توکوئی نقصان نہیں کرتے ۔اس کی کی کیاوجہ ہے ؟
اس کاسیدھا جواب یہ ہے کہ ایران جب مسلمان ممالک پرحملہ کرتاہے توان میزائلوں میں زہریلابارودبھردیتاہے جبکہ امریکہ اوراسرائیل کونشانہ بناتے وقت ان میزائلوں میں بارودبھرنابھول جاتاہے ۔دوسراجواب یہ ہے کہ ایران امریکہ اوراسرائیل پر،،دوستانہ حملے ،،کرتاہے جبکہ شام ،عراق ،پاکستان ،سعودی عرب اوردیگرمسلم ممالک کے ساتھ اس کارویہ ایک دشمن کا ساہے ۔اس کی تازہ مثال ایران کااسرائیل پرحالیہ حملہ ہے ،عالمی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق اسرائیل پر ایران کے حملے میں 300سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغے گئے جس میں اسرائیل کا ایک شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔(واضح رہے کہ ایران کایہ حملہ غزہ پراسرائیلی مظالم کی وجہ سے نہیں بلکہ دمشق میں اس کے سفارتخانے کونشانہ بنانے کے جواب میں کیاگیاہے )
اسرائیل پریہ دوستانہ حملہ بھی امریکہ کی منظوری سے کیاگیااسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللیہان نے کہا ہے کہ امریکاکو بتا دیا تھا اسرائیل پر حملے محدوداوردفاعی نوعیت کے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ اس حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع لائیڈآسٹن نے اسرائیلی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے کہا اسرائیل ایران پر کسی بھی جوابی کارروائی سے پہلے ہمیں بتائے۔جبکہ ایرانی حملے سے قبل اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکی فوج نے پچھلے ہفتے ہی ہوائی جہاز اور بیلسٹک میزائل ڈیفنس ڈسٹرائرز کو خطے میں منتقل کیا تھا جن کے ذریعے اسرائیل کی طرف آنے والے ڈرونز اور میزائلز گرانے میں مدد ملی۔ (اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو بھرپور موقع فراہم کیاگیا کہ وہ اس حملے سے قبل بچاؤ کے انتظامات کرلیں)قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو صاف صاف کہہ دیا کہ امریکا ایران پر جارحانہ آپریشن میں حصہ نہیں لے گا۔
ایساہی ایک دوستانہ حملہ ایران نے تقریبا چارسال قبل8جنوری 2020کوجنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا “بدلہ”لینے کیلئے کیاتھا۔ ایران نے عراقی صوبے اربیل میں امریکاکے زیرکنٹرول الاسد فضائی اڈے پر15بیلسٹک میزائل مارے تھے جن میں صرف ایک تیل ڈپو کے چند ٹینکرزکو معمولی نقصان پہنچاتھا۔دوسال قبل ٹرمپ نے اس حملے کے متعلق انکشاف کرتے ہوئے کہاتھاکہ اس حملے کے متعلق ایرانی قیادت ہم سے مکمل رابطے میں تھی ہم جانتے تھے کہ ایران اپنی عوام کومطمئن کرنے کے لیے یہ ،،نوراکشتی ،، کررہاہے۔ظاہر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے پاسداران کے چوٹی کے رہنماؤں کوایرانی حکومت کی رضامندی سے ماردیاہے اس کے جواب میں اگر ایرانی حکومت کچھ نہیں کرتی تو اس کے عوام بے قابو ہو جائیں گے،ایران امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست جنگ لڑنے کی تو سکت رکھتا نہیں اس لئے اسے ایسے بندوبست کرنا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف ایران نے اس سال جنوری میں عراق کے شہر کردستان، شام کے شہر ادلب پر میزائل داغے تقریباایک درجن کے قریب معصوم شہری مارے گئے اسی طرح بلوچستان کے شہر پنجگور میں ایک مقام نشانہ بنایا ۔جس میں بچوں سمیت چارافرادشہیدہوئے ۔ایران کی طر ف سے مسلمان ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ان واقعات میں اس کے گروپس اور اس کے میزائلوں کی برابر حصہ داری ہے۔ایران میں ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ 23 ہزار فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے تین لاکھ روایتی فوج میں جبکہ ڈیڑھ لاکھ پاسدارانِ انقلاب میں ہیں۔اس کے علاوہ پاسدارانِ انقلاب کی بحری فورس میں 20 ہزار اہلکار بھی ہیں۔پاسداران انقلاب کے ہزاروں اہلکارشام اورعراق میں عام لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہیں شام اور عراق میں ایران براہ راست بمباری اور میزائل بھی برساتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ زینبیون طرز کے مختلف دہشت گروپ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی کررہے ہیں تازہ اطلاع کے مطابق حکومت پاکستان نے گیارہ اپریل کوزینبیون کوکالعدم قراردے کردہشت گردجماعتوں کی فہرست میں شامل کردیاہے ۔
ایران نے خصوصا مڈل ایسٹ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے میں اہم کردار ادا کیاہے، خواہ یمن ہو، عراق و لبنان یا پھر شام یا بحرین ہر جگہ ایرانی پراکسیز نے ہی مشرق وسطی میں خونچکاں صورتحال پیدا کی مگراسرائیل کے حوالے سے ایران دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکاپہلی مرتبہ ایران کی طرف سے اسرائیل کونشانہ بنانے کی خبرسامنے آئی مگریہ حملہ بھی،، ایرانی سرکس،، ثابت ہوا۔
سوال یہ ہے کہ ایران اپنے میزائلوں سے اسرائیل کونشانہ بناسکتاہے ؟ ایران سے اسرائیل کا سب سے کم فاصلہ ایک ہزار کلومیٹر ہے اور یہ براستہ عراق، شام اور اردن بنتا ہے۔رپورٹس کے مطابق ایران کے پاس بیلسٹک اورکروز میزائل موجود ہیں جودوسے تین ہزارکلومیٹرتک مارکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ ایسے ڈ رون بھی موجود ہیں جودوہزارکلومیٹرتک 24گھنٹے پروازکرسکتے ہیں اس کے باوجود ایران نے اسرائیل پرایک ناکام حملہ کیوں کیا ؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سات اکتوبرکوحماس اوراسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعدایران پرسب سے زیادہ دبائوتھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کاروائی کرے مگرایران بھی دیگرمسلم ممالک کی طرح زبانی کلامی دعووں سے آگے نہیں بڑھ سکاتھا بلکہ اقوام متحدہ اوردیگرفورمزپروہ حماس کے اسرائیل پرحملوں سے لاتعلقی کااظہارکرتارہااورامریکہ کویہ باوروکرواتارہاہے کہ وہ کسی طرح بھی حماس کی مددنہیں کررہاحالت تویہ ہے کہ ایران کویہ بھی ہمت نہیں کہ وہ گزشتہ روزکے حملے کوہی غزہ پراسرائیلی جارحیت کے ساتھ جوڑسکے ۔؟چوں کہ عام مسلمان اس وقت اسرائیل کے حوالے سے شدیدجذبات رکھتاہے ایران میڈیاوارکے ذریعے وہ عام مسلمانوں اور اپنے عوام کویہ باورکروارہاہے کہ وہ عالم اسلام کالیڈرہے جواسرائیل کے خلاف نبردآزماہے ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ واقعی ایران کے حملے سے غزہ کے مظلوموں کوکوئی فائدہ پہنچے گا ؟اس حوالے سے بی بی سی کی ایک رپورٹ بہت کچھ آشکارکرتی ہے ۔بی بی سی کے مطابق غزہ کی جنگ اس لیے بھی طول پکڑ رہی ہے کیونکہ جنگ بندی کی صورت میں نیتن یاہو پر دوبارہ استعفی کے لیے دبا بڑھ جائے گا اور استعفی کی صورت میں پرانے الزامات اور مقدمات ان کی راہ بے چینی سے تک رہے ہیں۔نیتن یاہو کیمپ کا نظریہ ہے کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو انتخابات چے معنی دارد۔
نیتن یاہو پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ 1980 کے عشرے سے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا فعال حصہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب، وزیرِ خزانہ، وزیرِ خارجہ، وزیر دفاع اور قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدوں کے تجربات سے مالا مال ہیں۔ لہذا انھیں اندرونی و بیرونی بساط پر کھیلنے کا بخوبی تجربہ ہے۔ وہ بین الاقوامی رائے عامہ کو منقسم رکھنے اور اسرائیل پر سے منفی عالمی توجہ ہٹانے کے ماہر ہیں۔
مثلا اس سال 26 جنوری کو جب عالمی عدالتِ انصاف نے جنوبی افریقہ کی پٹیشن پر غزہ میں انسانی امداد کی بحالی اور سویلین آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیل کو مئوثر فوری اقدامات کرنے اور طاقت کے استعمال کو حد میں رکھنے کا پابند کرنے کی کوشش کی تو فیصلے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ممکنہ عالمی ردِعمل کی پیش بندی کے طور پر یہ رپورٹ جاری کر دی کہ اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے برائے فلسطین (انرا) کے کم از کم بارہ ارکان سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔میڈیا اور مغربی حکومتوں کی توجہ چند ہی گھنٹے میں عالمی عدالتِ انصاف کی رولنگ سے ہٹ کر اسرائیلی الزامات پر مرکوز ہو گئی اور متعدد ممالک بشمول یورپی یونین نے انرا کی امداد عارضی طور پر معطل کر دی۔
دبائو اتنا بڑھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی فوری طور پر ان اہلکاروں کی معطلی اور چھان بین کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ آج لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد بھی ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آ سکے۔ چنانچہ کئی ممالک نے انرا کی معطل امداد بحال کر دی ہے۔
دوسرا توجہ ہٹا واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا جب غزہ میں فلسطینیوں کو غذا فراہم کرنے والے سات بین الاقوامی رضاکار ایک فضائی کاروائی میں جاں بحق ہو گئے۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے چھان بین کا مطالبہ کیا۔واردات کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی فضائیہ نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا اس حملے میں ایرانی پاسداران کی القدس فورس کے دو اعلی عہدیداروں سمیت آٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ یوں غزہ میں سات بین الاقوامی امدادی رضاکاروں کی موت سے وقتی طور پر توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔
جب سے غزہ آپریشن شروع ہوا ہے۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر ایران نواز حزب اللہ سے جھڑپیں اور دور جنوب میں یمن کی حوثی انتظامیہ کی جانب سے آبنائے عدن کی ناکہ بندی غزہ کی مہم کے ثانوی نتیجے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مگر غزہ پر مسلسل عالمی دھیان اور جنگ بندی کے لیے بڑھتے دبا ئوکو بقول شخصے ڈیفلیکٹ کرنے کا ایک مجرب طریقہ یہ بھی ہے کہ بحران کا دائرہ بڑھانے کی کوشش ہو تاکہ زیادہ ممالک ملوث ہوں تو بوجھ بٹ جائے۔
دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ بھی مشرقِ وسطی پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کے مطابق ایک ٹریپ تھا۔اس حملے کاایران نے جواب دینے کا راستہ چنا۔ حالانکہ اس فوجی جواب میں کوئی ایسا اچانک پن (سرپرائز) نہیں تھا جو کسی بھی مئوثرعسکری آپریشن کا بنیادی محور ہوتا ہے۔ لگ بھگ ڈھائی ہزار کلو میٹر جغرافیائی فاصلے کی مجبوری میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ ایران کی جو بھی کارروائی ہو گی وہ اندرونِ ملک قومی وقار اور بیرونِ ملک اتحادیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک علامتی کارروائی ہو گی۔البتہ ایرانی جواب سے اسرائیل کو یہ فوری فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں اتحادیوں سمیت جو بین الاقوامی دبا رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا۔ اس سے وقتی طور پر مکتی مل گئی۔ اگر ایرانی علامتی کارروائی کا کوئی ٹھوس اسرائیلی یا اتحادی جواب الجواب ہوا تو پھر میڈیا اور باقی دنیا کا سارا فوکس غزہ سے ہٹ کے ایک بڑے ممکنہ بحران پر مرکوز ہو جائے گا۔ یوں اسرائیل کو غزہ اور غربِ اردن میں اپنے حتمی مقاصد کے تیز تر حصول کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔

نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three − 3 =