نومبر 24, 2024

ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم

تحریر: شبیر احمد شگری

گذشتہ روز پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی “پڑوسی پہلے ” کی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ پالیسی علاقائی ترقی اور باہمی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے وژن سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اسلام آباد دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے ۔انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ اقتصادی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا علاقائی امن و سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے ۔
اس ملاقات میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بالخصوص معیشت، توانائی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں حالیہ پیش رفت کو مزید آگے بڑھانے کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا۔
ایرانی سفیر گو کہ پاکستان میں حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے بہترین تعلقات کے بارے میں انھوں نے کئی بیانات دئیے اور ان کے عزم کا اظہارر بھی ہوتا ہے ۔ ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو سستی گیس، بجلی اور تیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے ایران اور پاکستان کے دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے کے بارے میں بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنی چار ائیر لائنوں کیلئے اجازت طلب کی ہے ، جبکہ فی الحال لاہور اور کراچی سے مشہد کیلئے پروازیں چل رہی ہیں۔ایران سے گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو فراہم کرنے کے بارے میں عزم کا اظہار کیا ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اس بحران کو حل کرنے کیلئے ایران پاکستا ن کو سستی گیس، سستی بجلی اور سستا تیل فراہم کر سکتا ہے ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے گذشتہ دنوں ایک سوال کے جواب میں چین کی کاوشوں سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے متعلق پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام میں ھمسائے کا بلند مقام اور حقوق ہیں۔ کسی ایک ھمسائے کو شکل ہو تو دوسرے کو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔
ایران اور پاکستان کے مابین قدیم ثقافتی، تاریخی، دینی و ادبی رشتے ہیں۔ بہت کم ممالک ایسے ہوں گے جو ایران و پاکستان کی طرح بہت سے رشتوں میں منسلک ہوں۔ ہم ایسی گراں قدر ثقافتی مشترکات کے مالک ہیں جو ہماری شناخت کا جزو ہیں۔ فارسی زبان، 800سالہ تاریخ، فارسی زبان میں علمائ، حکمائ، شعرائ اور بزرگان دین کے قدیم آثار و مکتوب، پاکستان کی لائبریریوں میں موجود فارسی زبان میں تحریر ہزارہا قلمی نسخے ، فارسی زبان کا اردو زبان کی تشکیل میں خاص کردار، دونوں ممالک کے شعرائ، مثلاً حافظ، سعدی، مولانا رومی، علامہ اقبال کے علاوہ ثقافت و ادب سے وابستہ دیگر نامور شخصیات کی دو طرفہ مقبولیت، یہ وہ بنیادیں ہیں جنہوں نے دونوں ممالک کے عوام کو برادرانہ مضبوط رشتوں سے جوڑ دیا ہے ہمیں چاہئے کہ اس مشترک میراث کی قدر کریں اور آئندہ کی نسلوں تک پہنچانے کیلئے اس کی حفاظت کریں۔ ان رشتوں کومظبوط بنانے کے لئے ، اساتذہ طلبہ، اہل علم و دانش اور ہنر مندوں کے وفود کے تبادلے یقیناً ایک دوسرے سے مزید آشنائی کا سبب بنیں گے جس پر ہمیں توجہ دینا ہے ۔ ایران و پاکستان کے درمیان قراردادوں اور معاہدوں کی کمی نہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ مصمم عزم و ارادہ ہے جو ان معاہدوں میں روح ڈال سکے ۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے حکام اور عوام کی جاری کوششیں ماضی کی کمی کو پورا کرنے اور اپنے بلند مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کو بجلی، پٹرول اور گیس کے شدید بحران کا مسلسل سامنا ہے ۔ اوراس بحران کے حل میں مدد کے لئے ایرانی حکومت بارہا خواہش کا اظہار کر چکی ہے ۔ لیکن جانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے اس پر زیادہ پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ۔ ہمارے ساتھ ہی موجود برادر ہمسایہ ملک ایران میں اس وقت پٹرول 15 روپے لٹر ہے ۔ اسی طرح گیس اور بجلی انتہائی سستی ہے ۔ لیکن ہم یہ سہولیات ایران سے لینے سے معذور ہیں۔ ہم دور دراز سے مہنگا پٹرول تو خرید سکتے ہیں لیکن اپنی عوام کو سہولت دینے میں ہمت نہیں دکھا سکتے ۔ اپنی غریب عوام پر جتنا مرضی بوجھ لادتے جارہے ہیں لیکن بیرونی طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ہماری حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں رلیف نہیں دے سکتی۔ گذشتہ حکومت مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئی آئی اورعوام کو مزید ہنگائی کے بجھ تلے دبا کر اپنی غلطیاں بھی گذشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈال چکی ہے ۔ ساری پارٹیوں نے مل کر حکومت چلائی لیکن عوام کے لئے ایک دھیلے کی بھی کوئی سہولت نظر نہیں آئی بلکہ غریب عوام مہنگائی میںپس کررہ گئی ہے ۔ نتیجہ ھم سب کے سامنے ہے عوام بجلی کے بل جلارہے ہیں اور سڑکوں پر موجود ہیں، پہیہ جام ہڑتال شروع ہوچکی ہے لیکن عوام کو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ نگران حکومت کیا کچھ کرے اس حکومت کا کام تو مقررہ مدت میں الیکشن کی راہ ھموار کرنا ہے ۔ ھم اس حد تک ان مشکلات میں جکڑ چکے ہیں کہ اس کا حل جمھوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت ہی نکال سکتی ہے ۔ لیکن ھماری گذشتہ حکومتوں نے کچھ ہمت دکھائی ہوتی اور ھمسایہ اوربرادر اسلامی ملک ایران سے ہی مدد لی ہوتی اور مستحکم بنیادوں پر عملی اقدامات کئے ہوتے تواس وقت پاکستان میں توانائی کا بحران شاید نہ ہوتا۔ مشکلات کا سامنا تو ایران کو بھی ہے جو مسلسل بین الاقوامی دشمنی اور پابندیوں کا شکار ہے لیکن انھوں نے جرات مندانہ اقدامات کر کے اپنے ملک کی عوام کو بہت ساری سہولیات مہیا کی ہیں۔ اور ایران دنیا بھر کی پابندیوں کے باوجود مسلسل ترقی کررہا ہے اور اس کی وجہ دنیا کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنے ملک کے لئے بہترین اقدامات کرنا ہیں۔ ہمیں بھی اسی عزم کی ضرورت ہے کہ مجبوریوں کی بیڑیوں کو کاٹ ڈالیں اورصرف اپنے ملک کا مفاد سوچیں۔ دنیا کی پرواہ کئے بغیر ہمیں ایران کی پیشکش کو اپنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ پاکستان اور ایران بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − 5 =