نومبر 23, 2024

ایران سے کیسے بات کی جائے؟

تحریر: نصرت علی شاہانی

چوبیس جنوری کے جنگ میں وطن عزیز کے واحد دوست مسلم ہمسایہ ملک کیخلاف بغض و عناد، غلط بیانی پر مشتمل یہ کالم ایسے وقت میں شائع کیا گیا، جب ہماری حکومت نے متعلقہ ریاستی اداروں کی مشاورت سے پاک ایران تعلقات میں عارضی کشیدگی ختم کرتے ہوئے دوستی کے دیرینہ تعلقات بحال کر دیئے ہیں اور ایرانی وزیر خارجہ خیر سگالی دورے پر ہمارے مہمان بننے والے ہیں۔ ان حالات میں ایسی غلط فہمی پیدا کرنیوالے گمراہ کن مضمون فقط ہندوستان کے مفاد میں ہیں، جو خطے میں پاکستان کو ایران جیسے مخلص دوست سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ آزادیء اظہار کے نام پر سلیم صافی نامی شخص نے اس کالم میں قومی مفادات کے تقاضوں کیخلاف اپنے قد سے بڑھ کر باتیں کی ہیں۔

دو تین دن پہلے جناب وسعت اللہ خان نے بی بی سی کے لئے کالم میں پاک ایران دوستی کے چند حقائق بیان کرتے ہوئے اس طرح کے غیر ذمہ دار لکھاریوں، اینکرز کی طرف بھی اشارہ کیا، جو اس عارضی کشیدگی پر بغلیں بجا رہے تھے۔ خان صاحب نے بجا طور پر ایسی صحافی نما مخلوق کے رویئے کو ہمارے ریاستی بیانیہ کیخلاف قرار دیا۔ لگتا ہے ان عناصر کو وسعت اللہ خان کا مبنی بر حقائق موقف اور پاکستان کا بیانیہ ناگوار گزرا ہے، جس کا ثبوت مسٹر سلیم کا یہ کالم ہے (بعض لوگوں نے کسی خاص وجہ سے اس کے نام کے لاحقے کو تبدیل کر دیا، اس لیے وہ ذکر نہیں کرتے) بلاشبہ ایران کے ungoverned علاقے میں چھپے ہمارے معصوم شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں کے سفاک قاتلوں کیخلاف پاک فوج کی شجاعانہ کارروائی لائق تحسین ہے۔ یہ صرف ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کے اصل دشمنوں امریکہ، افغانستان، بھارت کیلئے بھی سخت پیغام ہے، جنہوں نے پاک سرزمین پر ہزاروں بے گناہوں کو شہید کیا۔

کالم نگار ویسے تو “خفیہ معلومات” کے انکشاف کیلئے بڑی دور کی کوڑی لاتا ہے، لیکن بلوچستان میں چھپے جیش العدل کے ایرانی دہشتگردوں کے مظالم کے بیان اور ان کے عبرتناک انجام کے بارے نجانے کیوں اس کے قلم کی زبان گنگ ہوگئی؟ لگتا ہے کہ اس کا ہدف دہشت گرد نہیں بلکہ فقط اسلامی حکومت ہے۔ اس ہر بھی غور کیا جائے کہ کالم نگار جیش العدل کو سفاک دہشت گرد کہنے کی بجائے ایرانی حکومت کا محض مخالف کیوں کہتا ہے۔؟ (جیش العدل وغیرہ کی سرپرست قوتوں کی طرف سے ایران مخالف پراپیگنڈہ کیلئے مبینہ سرمایہ کاری تشویشناک ہے) القاعدہ سے ایرانی دوستی کی خبروں پر مسٹر سلیم “صادق و امین” برطانوی صحافیوں کے فرامین پر ایمان رکھتا ہے، جن کی عالم اسلام کیخلاف ریشہ دوانیوں کو دنیا جانتی ہے۔ کالم کی ہر بے تکی بات کا جواب وقت کا ضیاع ہے۔

القاعدہ و طالبان سے ایران دوستی اور دیگر الزامات تضاد بیانی کا ثبوت ہیں، جیسے کہ یہ مضحکہ خیز جھوٹ کہ نائن الیون کے بعد ایران نے اپنے ازلی دشمن امریکہ پر افغانستان پر حملے کیلئے “دباؤ” ڈالا۔ حق کی دشمنی درست الفاظ کے انتخاب کی توفیق بھی سلب کر لیتی ہے۔ صحابہ کرام کے مزارات منہدم کرنیوالی، زندہ مسلمانوں کی کھال اتارنے والی سفاک اسرائیلی پراڈکٹ “داعش” کو جہنم رسید کرنیوالے عظیم اسلامی جرنیل قاسم سلیمانی کی تعریف کرنے کی بجائے ان کی اپنے قاتل امریکیوں سے ساز باز کوئی فاطر العقل ہی کرسکتا ہے، جس کا یہ شخص دعویٰ کرتا ہے۔ اسرائیل کیخلاف عرب زبان، اہلسنت حماس، یمنی مجاہدین کے ایران کے ہمنوا بننے کو ایرانی ایجینسیوں کی “چالاکی” کہنے سے بھی مسٹر سلیم کی پریشانی کی اصل وجہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسی “چالاکی” کا اسے عرب حکمرانوں کو بھی مشورہ دینا چاہیئے۔ عرب، اسرائیل تعلقات استوار کرنے میں ایران کی رکاوٹ پیدا کرنیوالی چالاکی پر بھی کالم نگار کو تشویش ہے۔

اس کا یہ جھوٹ بھی افسوسناک ہے کہ مغرب نے ایران سے توجہ ہٹا کر حماس پر مرکوز کر دی ہے اور ایران نے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس بے چارے کو نہیں پتہ، ورنہ مغرب سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ اور یمن میں میزائل و اسلحہ کی فیکٹریاں نہیں ہیں۔ اسے حماس رہنماؤں کا یہ بیان نقل کرنے کی جرات بھی نہیں کہ سب کچھ ایران دے رہا ہے۔ چند ہفتے قبل ایران میں بے گناہوں ہر ہونیوالے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے اعتراف کیا اور اسے بدلہ اور انتقام قرار دیا۔ ایران نے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ ان کے ہم زبان، ہم مسلک عرب ممالک کی بے حمیتی، بزدلی نے ان کی مظلومیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق ایران آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

وطن عزیز کی عسکری، ریاستی سیاسی ذمہ دار قیادت کالم نگار کے اس بیہودہ الزام کا نوٹس لے کہ ایران، پاکستان کے مفادات کیخلاف ہے۔ یہ شخص کن کی بولی بول رہا ہے۔؟ اسے اس بات پر کیوں تکلیف ہے کہ پاکستان، ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہ تو ہندوستان کی دیرینہ ناپاک خواہشات کی ترجمانی ہے۔ یمن کے مظلوم مسلمانوں کیخلاف پاک فوج کے استعمال نہ ہونے کے ہماری پارلیمنٹ کے تاریخی فیصلے پر بھی جارح قوتوں کے خوشامدیوں کو تاحال تکلیف ہے۔ کلبھوشن جیسے سیاہ کردار کافی ممالک میں ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں، پالے نہیں جاتے۔ جیسا کہ جنداللہ کا سرغنہ عبدالمالک ریگی دھوکہ دہی سے پاکستانی شناختی کارڈ پر مبینہ طور پر سی آئی اے کی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی کرتا رہا۔ ایران نے تو حکمت عملی سے اسے فضاء سے گرفتار کیا، جرائم کے عدالتی اعتراف کے بعد اسے جہنم پہنچا دیا۔

ادھر کلبھوشن کے عبرتناک انجام کا انتظار ہے۔ مسٹر سلیم کا ایران پر فرقہ واریت پھیلانے کا گھٹیا الزام یہاں کی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی دیرینہ ہرزہ سرائی کی ترجمانی ہے۔ یہاں ایرانی سفارتی مشنز کے وحدت و اتحاد بین المسلمین کے اجتماعات، تہران کی ربیع الاول میں منعقدہ سالانہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہاں کے جید اہلسنت علماء کی شرکت اس کے جھوٹ کی تردید کیلئے کافی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ پاکستان کی تمام دینی، مذہبی جماعتوں کے معتبر فورم “ملی یکجہتی کونسل” کے قیام میں ایران کے تعاون یا دخل کا اس شخص نے بھی اپنے کالم میں بالواسطہ اعتراف کیا تھا۔ کالم کے اختتام میں ایران کو ہندوستان کی طرح ڈیل کیے جانے کا معاندانہ، احمقانہ مطالبہ ہر محب وطن پاکستانی کے نزدیک قابل مذمت ہے۔

پاک ایران دوستی زندہ باد!

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twelve + one =