تحریر: سید فرخ عباس رضوی
سیده فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے تمام تر وجود کے ساتھ امامت کا دفاع کیا، اور آنے والی نسل کو بھی سکھایا کہ امامت کا دفاع کیسے کیا جاتا ہے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ قیام کرنا کمال نہیں بلکہ قیام صحیح وقت پر قیام کرنا ہنر ہے۔ اگر قیام وقت سے پہلے یا وقت کے بعد کیا جائے تو اس کا فائدہ صرف طرفِ مقابل کو حاصل ہوتا ہے، چاہے قیام کرنے والے کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں۔ توّابین کا قیام اس کی واضح مثال ہے۔ توّابین نے قیام تو کیا تھا مگر وقت گزرنے کے بعد۔
بعدِ رسول حالات اتنے حساس تھے کہ قلم ان حالات کو ضبط نہیں کرسکتا۔ باطل مسندِ حق پر قبضہ کرچکا تھا اور حقدار کو ضعیف کیا جاچکا تھا۔ ایسے موقع پر کہ جب علی علیہ السلام اپنے حق کا دفاع کرتے تو دنیا انہیں نعوذبااللہ دنیا طلب کہتی اور اگر اپنے حق سے دستبردار ہوتے تو دینِ الہی نااہل کے ہاتھ لگ چکا تھا، ایسے موقع پر سیدہؑ نے موقع کی حساسیت کو سمجھا۔ اگرچہ سیدہؑ زخمی تھیں مگر اس کے باوجود یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حق کا دفاع نہ کرتیں۔ سیدہؑ کو معلوم تھا کہ اگر آج قیام کرلیا تو رہتی دنیا تک منافقین رسوا ہوجائیں گے، اسی لیے سیدہؑ اپنے زخم بھول کر خواتین کے جھرمٹ میں مسجد کی طرف چلیں، گویا ایک ہاتھ سے پہلو پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے چادر تھامی ہوئی تھی۔
سیدہؑ کا دروازہ سیدھا مسجد میں کھلتا تھا، حق تو یہ تھا کہ اس زخمی حالت میں سیدہؑ اسی دروازہ سے داخل ہوجاتیں مگر سیدہؑ نے مسجد کے صدر دروازہ سے داخل ہونے کو فوقیت دی، تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ سیدہؑ، علی علیہ السلام کا دفاع کرنے گھر سے نکل پڑی ہیں۔
مسجد مسلمانوں سے چھلک رہی تھی، کہ اچانک سیدہؑ نے تین پردوں کے پیچھے سے خطبہ دینا شروع کیا کہ جو خطبہ فدک کے نام سے مشہور ہے۔
مگر عجیب بات تو یہ ہے کہ اس پورے خطبہ میں فدک کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیوں کہ سیدہؑ نے اس میں معارف کا سمندر بہا دیا اور امیر المومنین علیہ السلام کی مدح و ستایش کرتے ہوئے ان بزدلوں کو آپ علیہ السلام کی شجاعت یاد دلائی۔
ابھی امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ایسے شیعہ موجود تھے کہ جو فدک کے بارے میں گواہی دے دیتے مگر سیدہؑ نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا کیوں کہ فدک تو بس ایک بہانہ تھا، اصل میں تو سیدہؑ قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچ دینا چاہتی تھیں، اور سیدہؑ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور قیامت تک کے لیے منافقین کے چہروں سے نقاب چھین لی۔