نومبر 16, 2024

اگر یہ سچ ہے تو انجام برا  

تحریر: قادر خان یوسف زئی

چشم فلک نے ہبوط ِ آدم سے لے کر اس وقت تک سطح ِ ارض پر لاکھوں انقلابات دیکھے، عبرت انگیز، دیدہ کشا، حیرت زا، ابھرتی ہوئی قوموں کو دیکھا، الٹتی ہوئی سلطنتوں کو دیکھا، چمکتی ہوئی تہذیبوں کو دیکھا، مٹتے ہوئے تمدنوں کو دیکھا، ثریا رس محلات کو دیکھا، پھر ان کے کھنڈرات کو دیکھا، ریت کے تودوں کو لالہ زار بنتے اور شگفتہ و شاداب گل کدوں کو ویرانوں میں تبدیل ہوتے دیکھا کہیں راکھ کے ڈھیر کے نیچے خوابیدہ چنگاریوں کو شعلہ بیدار بنتے اور کہیں تڑپتی ہوئی بجلیوں کو راکھ کے ڈھیر میں منتقل ہوئے دیکھا۔ یہ سب تماشے فی الحقیقت حیرت انگیز اور عبرت انگیز تھے قیام پاکستان کے بعد کی نسلوں نے پرانے سے نیا اور نئے سے پرانے پاکستان کو بنتے اجڑتے دیکھا، انقلاب کے نام پر بار بار تبدیلیوں کو دیکھا، ہر قسم کے نظام کو مسلط ہوتے، عوام کے نام پر حکمرانی کے کئی چہرے دیکھے، عزیز ہم وطنوں سے عوام کی حکومت کے نام پر قوم کو ایک بنانے کیلئے فسوں گری دیکھی۔ لرزہ خیز سیاسی جہاد کے نام پر مفاہمت کے انداز دیکھے، سیاست کے میدانوں کو خون شہادت سے لالہ زار بھی ہوتے دیکھا، قربانی مانگنے والوں کیلئے قربانیاں دیتے ہوئے عوام کو دیکھا، اشرافیہ کو مراعات اور اقتدار کی کرسی پر غریب کے نام پر براجمان ہوتے دیکھا۔ کہئے کہ آسمان کی آنکھ نے اس سے زیادہ عبرت انگیز اور اس بڑھ کر حیرت زا انقلاب اور تبدیلیاں کہیں اور نہ دیکھی ہوں گی جتنی اہل وطن نے دیکھی۔
اب دیکھیں کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں اہل کراچی نے جس انقلاب کو آتے دیکھا، اسے کوئی چھوٹا انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ جس قسم کے انتخابات کرائے گئے اسے انتخابات کم اور تاسف انگیز واقعہ ضرور کہا جا سکتا ہے اگر اہل وطن میں تحفظات کی لہر دوڑ رہی ہے تو یہ فطری امر ہے، جب تک جمہوریت میں اکثریت کے نام پر یہ سب ہوتا رہے گا، دل خون کے آنسو روتا رہے گا۔ با شعور کراچی کے عوام کی اکثریت نے ایک ایسے انتخابی عمل کو تماشا بنتے دیکھا جس میں خود کھلاڑیوں کو نہیں معلوم تھا کہ کھیل شروع ہو چکا ہے یا نہیں۔ تماشائی بیچارے کیا کرتے، انہوں نے تو غلاف پہلے اوڑھ رکھا تھا کہ سردی کے موسم میں بیمار نہ پڑ جائیں۔ سیاسی جماعتیں جنہیں جمہوری نظام پر فخر ہے ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ انہوں نے ایسے نظام کا وعدہ کیا تھا کہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ یقین کرتے وہ عوام جنہیں جمہوریت پر اور اپنی جماعتوں پر ناز ہوگا، وہ بھی سوچیں کہ یہ سب ہوا کیا تھا۔ اب ہمیں یہ سمجھنے میں بھی دشواری نہیں ہوگی کہ بہت سے لوگ جو آج غیروں کے کیمپ میں نظر آ رہے ہیں تو کبھی اپنوں سے الگ، تو یہ قوم کی بدبختی نہیں تو اور کیا ہے۔ سو ایسا کون ہے جو اس کا اقرار کرے کہ اس نے مجبوری اور بے چارگی میں کسی بھی اس انتخابی عمل کو اختیار کیا تھا۔ عام لوگوں کی ان توقعات کو دیکھ سکتے ہیں کہ کرم خوردہ انتخابات اہل کراچی میں مزید بگاڑ اور لسانی اکائیوں کے درمیان فاصلے کا سبب بنے گا۔
انفرادی حفاظت کا جذبہ ہر حیوان میں پایا جاتا ہے۔ آپ ایک چیونٹی کو بھی پکڑنے یا مارنے کی کوشش کریں گے تو وہ بھی اپنے تحفظ کیلئے امکان بھر قوت صرف کرے گی اس لیے اگر انسان صرف اپنی انفرادی حفاظت ہی کی فکر کرتا ہے تو یہ تو محض تقاضائے حیوانیت ہے، اس کی انسانی زندگی اس سے آگے جا کر شروع ہوتی ہے او روہ زندگی یہ ہے کہ اپنے انفرادی استحکام کے ساتھ ساتھ اجتماعی استحکام و تحفظ کی بھی فکر کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسانی زندگی اجتماعیت کی زندگی ہے۔ اسے حیوانوں کی طرح الگ الگ نہیں بلکہ آپس میں مل جل کر رہنا ہے اس لیے ایک فرد کی حفاظت جماعت کی حفاظت پر مبنی ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے رواں قافلہ کے ہر فرد کیلئے مضبوط و توانا ہونا نہایت ضروری ہے، یہ انفرادی استحکام ہے، اجتماعی استحکام اس سے اگلا قدم ہے۔ یہ ’بے ہمہ شو‘ کی زندگی ہے لیکن یہی مقصود نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اس انفرادی استحکام میں اہل کراچی کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کیلئے وہ سیاسی استحکام کے نام نہاد دعوے کہاں سے میسر ہوں گے جس کا بار بار بلند بانگ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ در حقیقت بلدیاتی مراحل میں خاص طور پر اہل کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے دیکھنے کے بعد بے یقینی بڑھ چکی ہے کہ یہ کھیل آئندہ بھی اس سے زیادہ منظم ہو کر کچھ اس طرح کھیلا جائے گا کہ عوام ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں گے تحلیل شدہ صوبائی حکومتوں اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات ہونے تک عوام میں لرزہ طاری رہے گا کہ سیاسی استحکام لانے کے چکر میں انہیں گھن چکر نہ بنا دیا جائے۔ شاید یہ عام انتخابات تک چلے جائیں لیکن مجموعی صور تحال اور سیاسی شطرنج کی چالوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال ، اپنی چال بھی بھول گیا ۔ تین ماہ ایک بار پھر سیاسی پل صراط پر چلنا ہوگا ، کراچی کا منظر نامہ شدید اختلافات کی نذر ہوگا اور وہی ہوگا کہ عوام کی جانب توجہ کم اور اقتدار کی جانب توجہ زیادہ ہوگی کیونکہ اختلافات کا واحد نتیجہ خلفشار اور انتشار ہی ہوتا ہے۔
مملکت سخت امتحان سے گذر رہی ہے، مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے جو آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے عوام کے ساتھ چل سکے، لیکن یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے اور آنے والے وقت میں حالات کتنے دشوار گزار ہو سکتے ہیں، اس کیلئے کسی معاشی ماہر کے گنجلک اعداد و شمار کی ضرورت نہیں ہے۔ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے۔ اسے تختہ مشق بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، کراچی میں ایک بڑے طبقے کا مینڈیٹ شامل نہیں ہے۔ ان میں احساس محرومی و بد اعتمادی کی فضا پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ انتخابی نتائج جیسے بھی آئے، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا کہ وہ اہل کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں مضبوط کردار ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔ نتائج میں ایک بات واضح ہے کہ شرائط پر ٹکنے والے، پہلے حریف اور اب حلیف کی قطار بندی نے عوام کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کردیا ہے کہ ان کا شمار کہاں ہوتا ہے۔ یاد رکھیئے انتخابی اصلاحات کئے بغیر ملک میں کسی بھی انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ کسی کے مقبولیت کا بت خاک جائے یا پھر اہم سٹیک ہولڈردھرنے و احتجاج کی سیاست کر رہا ہو تو اس کا نتیجہ پورے ملک پر اثر انداز ہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × three =