نومبر 24, 2024

او آئی سی ،امت مسلمہ اور غزہ 

تحریر:عمر فاروق

یہ ہے وہ او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم )کہ جس کے ہم صبح و شام قصیدے پڑھتے ہیں۔ جس سے ہم نے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں کہ وہ امہ کے مسائل حل کرے گی ، دوارب سے زائدمسلمانوں کی نمائندگی کاسرٹیفکیٹ جس کے پاس ہے ،امت پرجب بھی کوئی افتادپڑتی ہے توہماری پہلی نظر اوآئی سی کی طرف اٹھتی ہے مگراوآئی سی نے ہمیشہ امت کومایوس ہی کیا۔ او آئی سی اورعرب لیگ جیسے فورم ملت ِاسلامیہ کی نمائندگی کے بجائے درحقیقت استعمارکی کٹھ پلتی بن چکے ہیں ان سے یہ امیدرکھناکہ یہ امہ کی نائوپارلگائیں گے فضول ہے۔

اوآئی سی ان 57اسلامی ممالک کی نمائندگی کادعوے دار جو ایک زنجیر کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان سے لے کر ایشیا و یورپ کی سرحد پر واقع ترکی تک اور مشرق وسطی کے عرب ممالک سے شمالی افریقہ کے مسلم اکثریتی ممالک تک اسلامی ممالک کی سرحدیں باہم ملی ہوئی ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداددو ارب سے بھی زائد ہے، جن کی اکثریت جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں آباد ہے۔ اکثر مسلم ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ دنیا میں عالمی سطح پر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد 20 ہے، جن میں سے 12 اسلامی ممالک ہیں۔ مسلم ممالک کے تیل کی دولت کو دیکھ کر یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ جہاں مسلمان ہے وہاں تیل ہے۔

عسکری اعتبارسے دیکھا جائے توچالیس ممالک کی مشترکہ فوج کے علاوہ لاکھوں کی تعدادمیں دنیاکی بڑی فوج ہمارے پاس ہے عسکری وسائل کی بات کی جائے امریکا سب سے زیادہ فوجی طیاروں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ عام طور پر اس کے پاس 13 ہزار 300 فوجی طیارے ہیں۔ عرب دنیا میں مصر ایک ہزار 69 فوجی طیاروں کے ساتھ پہلے اور دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 897 فوجی طیاروں کے ساتھ عرب دنیا میں دوسرے اور دنیا میں 12ویں نمبر پر ہے۔ متحدہ عرب امارات 565 فوجی طیاروں کے ساتھ دنیا میں 20ویں اور عرب ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔

اس کے مقابلے میں یہودیوں کی دنیامیں کل آبادی دوکروڑسے بھی کم ہے جس میں سے تقریبا80لاکھ یہودی اسرائیل میں ہیں اتنے ہی یہودی باقی دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ تعداد مسلمانوں کی تعداد کا تقریبا ایک فیصد ہے، یعنی مسلمان تعداد میں یہودیوں سے ننانوے فیصد زیادہ ہیں۔اس کے باوجود 57اسلامی ممالک میں سے صرف 13ممالک ایسے ہیں کہ جنھوں نے اسرائیل کوتسلیم نہیں کیاباقی سب اسرائیل کے درپرسجدہ ریزہوچکے ہیں غزہ کی جنگ نہ چھڑتی توسعودی عرب بھی اس معاملے میں کافی حدتک آگے جاچکاتھا ۔

گزشتہ ایک ماہ سے اسرائیل غزہ کے 23لاکھ محصورین پرحملہ آورہے،امریکہ سمیت تمام کفریہ طاقتیں اسرائیل کی پشت پرکھڑی ہیں امریکہ ،برطانیہ ،فرانس سمیت دیگرشیطانی طاقتیں اس جنگ میں عملی طورپرشامل ہوچکی ہیں اسلحہ سے بھرے بحری بیڑے مسلم ممالک کی بندرگاہوں سے اسرائیل پہنچ رہے ہیں بم وبارود سے لیس جہازمسلمان ممالک کی فضائوں سے گزرکراسرائیل میں اتررہے ہیںاس سے بڑی ستم ظریفی کیاہوگی کہ جن عرب ممالک نے اسرائیل کوتسلیم کیاہے وہ بھی انسانی ہمدردی کے نام پراسرائیل میں امدادرہے ہیں۔ 22 عرب ممالک کی طرف سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف دی جانے والی قرار داد کو امریکا اور برطانیہ آسانی سے مسترد کر دیتے ہیں، مگر عرب ممالک صرف خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔مسلمان تنظیمیں غزہ کے مظلوموں تک امدادپہنچانے سے بھی قاصرہیں ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔اس سب کے باوجود اہل غزہ کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی جواپنے بچے کٹواکربھی میدان میں کھڑے ہیں جو اسرائیل کی جدید ترین جنگی مشینوں اور امریکا یورپ کی سیاسی، معاشی، سفارتی، ابلاغی اور عسکری سرپرستی اور امداد کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔

ایسے میں ایک ماہ بعدہماری اوآئی سی نے ایک اجلاس منعقدکیاجس سے امت مسلمہ کوامیدتھی کہ ایسے اقدامات سامنے آئیں گے کہ جس سے مسلمانوں کے زخموں پرمرہم کاساماں ہوگا اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنایاجائے گا مگریہ اجلاس بیان “مذمت”مطالبے اور “درخواست” سے آگے نہ بڑھ سکااوآئی سی کے اعلامیہ سے امت اسلامیہ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ یہ ادارے مسلم امہ اور ہمارے مقدسات کے دفاع سے قاصر ہیں۔ نیز ہماری عوام امریکہ و یہودیوںکے سامنے ایک نوالہ تر ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے شہر ریاض میں غزہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے تاریخی اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ممالک کے رہنما اسرائیل کیخلاف کسی عملی اقدام پر متفق نہیں ہو سکے۔ اگرچہ کہ اجلاس میں اسرائیل کیخلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کے لیے ہر قسم کی تجاویز پیش کی گئیں تھیں۔ایران کی طرف سے پیش کی جانے والی سخت ترین تجویز، جس میں تمام رکن ممالک سے اسرائیلی فوج کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے کہا گیا تھا، سے لیکر شام کے صدر بشار الاسد کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز جس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، ان میں شامل تھیں۔

یہ اجلاس، جسے آخری لمحات میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رہنمائوں کے مشترکہ اجلاس کے طور پر متعارف کرایا گیا، ان مسلم اور عرب ممالک کے درمیان مفادات کے گہرے ٹکرا ئوکی واضح عکاسی تھی جو عام طور پر دنیا کی تمام مسلم آبادی کی نمائندہ تنظیم کے طور پر خود کو متحد دکھاتے تو ہیں لیکن عملی اقدمات کے وقت ہر ایک کی الگ الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔

عرب سفارت کاروں نے جو کچھ میڈیا کو بتایا ہے اس کے مطابق لبنان اور الجزائر نے عرب لیگ میں اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دینے کی تجویز دی تھی جس کی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مخالفت کی ۔کچھ ممالک اتنا آگے جانے سے گریزاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس کے حتمی اعلامیے میں کم سے کم اہداف پر ہی توجہ مرکوز رہی، جن پر سب کا اتفاق ہو۔ ان مطالبات میں جنگ بندی، اسرائیل کی مذمت اور فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ شامل ہیں۔اور یوں ریاض میں ہونے والا یہ اسلامی ممالک کا اجلاس اپنی تاریخی نوعیت کے باوجود درحقیقت ایک سنگین اور گہری تقسیم کا مکمل نظارہ بن کر رہ گیا۔

اسرائیلی فوج غزہ میں کس قدر ظلم و درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے پوری پوری آبادیوں پر اور کئی کئی منزلہ عمارتوں پر بم برسا کر زمین بوس کر رہی ہے، ہزاروں لوگ اس درندگی سے منٹوں میں لقمہ اجل بن گئے، معصوم بچے اور بچیاں پھول جیسے بدن روز منوں ملبہ میں دب کر اپنے رب سے جا ملے، مائوں، بیٹیوں اور پھول سے معصوم بچوں پر اسرائیلیوں نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں مگر ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیا ہم اسلام کے بد ترین دشمنوں کے اتحادی بن گئے ہیں؟ وہ کلمہ گو مسلمانوں کی بستیاں کی بستیاں اجاڑ دیں اور پوری دنیا کے مسلم حکمراں جنت کے حقدار کا سرٹیفکیٹ اپنے گلے میں ڈالے تماشا دیکھ رہے ہیں،

اوآئی سی اورعرب لیگ میں شامل رہنماء امریکہ ،برطانیہ کے رہنمائوں کی طرح حماس یاغزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے،اسرائیل کے خلاف لڑنہیں سکتے اپنی فوج فلسطین بھیج نہیں سکتے توکم ازکم اتنی غیرت کامظاہرہ کرتے کہ اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی کے لیے خلیج کے امریکی فوجی اڈوںاورفضائوں کے استعمال کو روک سکتے تھے ،اسرائیل کوتیل کی فراہمی روک لیتے ،کچھ عرصے کے لیے سفارتی اوراقتصادی تعلقات تومنقطع کردیتے ،شایداس سے ان کے زخموں پرکچھ تومرہم مل جاتامگراتنی غیرت ان میں کہاں ؟۔

خونِ فلسطینیوں سے کھیلے جانے والے ظلم و درندگی سے آج چنگیز خان کا ظلم بھی شرما تا ہے، اگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی خوف خدا ہوتا تو یوں یہ خاموش تماشائی نہ بنے ہوتے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی لا تعداد شہادتوں پر اور ان کے جسموں سے بہنے والے پاکیزہ لہو اور معصوم بچوں کی کرب ناک صدائیں سنائی دیتیں جو رو رو کر ہمیں پکارتی ہیں، کہ مسلم حکمرانوں ہمیں ان صہیونیوں کے ظلم سے بچا لو۔ کیا ان بچوں کی سسکیوں اور آہوں پر لبیک کہنے والا کوئی ہے؟ اگر نہیں تو یہ امت مسلمہ کے حکمراں نہیں بلکہ امت مسلمہ کے مجرم ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − 8 =