تحریر: محمد صغير نصرٓ
دنیا کے پُر ہجوم میلے میں اکثر فوجی جرنیل ایسے ہوتے ہیں جو فقط اپنے پیشہ وارانہ کام پر توجہ دیتے ہیں عہدے کے مطابق تنخواہ لیتے ہیں یا پھر اگر مزاج کی تیزی اور ہاتھ کی چالاکی کام کر جائے تو کوٹھیاں، پلاٹ اور جائدادیں بنا کر ریٹائرمنٹ کے بعد لگثرری زندگی گزارتے ہیں انھیں مسلم اُمّہ کے وقار اور پِسی ہوئی مِلَّتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور کئی بڑے جرنیل تو اپنا پروفیشنل رینک بیچ کر مُرفَّع زندگی کے لیے بیرون ممالک بھی شفٹ ہو جاتے ہیں، ایسے جرنیل بدن کے اوجھل ہونے سے پہلے ہی تاریخ کی گَرد میں گُم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ مرنے کے بعد انکی قبروں کے کَتبے بھی بیگانہ ہو جاتے ہیں. لیکن دنیا کی اس تیز دھوپ میں کچھ سپہ سالار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے ہم محفل ہوتے ہیں اور دن کے اُجالے میں استکبار کے ہاتھوں پِسی ہوئی، ستم دیدہ مِلَّتوں کی نجات کا سامان کرتے ہیں، انکے دکھ درد بانٹتے ہیں آنسو پونچھتے ہیں اُنکے بے سائبان گھروں کا سائبان بنتے ہیں. اپنے ساتھ کئے گئے الہی عہد کے پاسدار ہوتے ہیں اور غریبوں کی دادرسی کے لیے تڑپتے ہیں ایسے جرنیلوں کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ دنیاوی پروٹوکول کیا ہوتا ہے اور گولی و میزائل کہاں سے آ رہے ہیں وہ نور خدا کی ضُو میں آگے بڑہتے ہیں اپنا وظیفہ ادا کرتے ہیں اور حناءِ شھادت سے سرخرو ہو کر اپنے رب کے جوار میں نزدیک ترین مقام پر فائز ہو جاتے ہیں وہ وراثت میں کوٹھیاں اور بنگلے نہیں بلکہ مِلَّتوں کی نجات کا مکتب چھوڑ جاتے ہیں تاکہ انکی شھادت کے بعد بھی مظلوم قومیں انکے مکتب نجات پر چل کر ظلم و بربریت کی زنجیریں توڑ سکیں. شہید قاسم سلیمانی، سپہ سالاروں کے اسی قافلے کے سردار ہیں جو رضائے الٰہی سے کم پر راضی نہیں ہوتے اور امریکہ و اسرائیل جیسے عالمی استکبار سے کمتر کسی کو دشمن نہیں بناتے، شہید قاسم سلیمانی اور اسکے کئی ہم رزم ساتھی مشرق وسطیٰ میں ایک لمبا عرصہ تک وظیفہ الہی کی ادائیگی اور استکبار کو ناکوں چنے چبوا کر لباس شھادت پہن چکے ہیں اور انکے پاکیزہ لہو کی تاثیر نیز الٰہی حکمت عملی کے سبب فلسطین، شام، عراق، لبنان، افغانستان اور یمن میں لوگ سر اُٹھا کر جینے کا ڈھنگ سیکھ چکے ہیں جبکہ مقابلے میں عالمی استکبار اپنا سر چھپانے کے لئے کونے اور نُکریں ڈھونڈ رہا ہے عالم اسلام میں شہید قاسم سلیمانی کی خدمات کو دیکھ کر اکثر میں سوچتا ہوں کہ سارے مسلم جرنیل ایسے کیوں نہیں ہوتے؟ تو ہر طرف سے بے آواز صداؤں کا ہجوم مجھے گھیر لیتا ہے کہ سوچنے والے ذرا دنیا کی وابستگیوں کو مدنظر رکھ کر سوچیں کیونکہ “پھر جرنیلوں میں فرق بھی تو ہوتا ہے” اور اپنے نفس کی قید سے آزاد ہو کر سوچنے والے جرنیل بہت ہی نادر ہوتے ہیں.