تحریر: سید اعجاز اصغر
بین الاقوامی سطح کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سامراجی اور استعماری طاقتیں اپنی دنیا پرستی، قدرت طلبی، زور گوئی کے نشہ میں ملوث پائی گئیں ہیں، اور یہ مغربی و مشرقی سامراجی طاقتیں ہمیشہ فتنہ فساد کے بل بوتے پر ہی معرض وجود میں آئی ہیں، یوں ہی انسانی جدت میں اضافہ ہوتا گیا سامرا جی ممالک اپنے قاعدے، قانون و ضوابط کی فعالیت کو عملی جامہ پہناتے گئے،
دوسری جنگ عظیم کے بعد ان سامراجی ملکوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی طاقت اور قدرت کے زور سے دیگر ممالک کو خوفزدہ اور یرغمال کر لیں تاکہ کوئی ان کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکے،
لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے سامراجی طاقتوں کو بہت تعجب ہوا، مگر ان کو غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ یہ انقلاب عارضی ہے کیونکہ سابقہ ادوار میں کئی اسلامی تحریکوں کو یہود و نصارٰی نے نیست ونابود کیا تھا، مغربی اور مشرقی ممالک نے سمجھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کی روشنی سے اس انقلاب ایرانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے ، لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا سامراجی حلقوں میں نیندیں حرام ہوتی گئیں اور سمجھنے لگے کہ یہ انقلاب تو دوسری اسلامی تحریکوں سے نمایاں فرق رکھتا ہے، انقلاب ایرانی کے آغاز سے تا حال سامراجیت نے اس اسلامی انقلاب کو نیست ونابود کرنے کی سر توڑ کوششیں کی ہیں مگر ناکامی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے، غزہ میں امریکہ و اسرائیل و دیگر اتحادی ممالک کی مسلسل ناکامی انقلاب ایران کا منہ بولتا ثبوت ہے، بزدل اسرائیل اب یورپی ممالک کو ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے تعاون کی بھیک مانگ رہا، تمام یورپی ممالک اسلامی انقلاب ایرانی کے خلاف بر سر پیکار ہیں، اپنے اوچھے ہتھ کنڈے جاری رکھے ہوئے ہیں،
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔