تحریر: سید اعجاز اصغر
انقلاب ایران کے بعد دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنے کے لئے مغربی ممالک نے بہت زیادہ لٹریچر شائع کیا مگر مذہب اسلام کی حقانیت غالب رہی، کیونکہ دین کے معنی قرآن کریم کے مطابق اجتماعی و سیاسی مسائل شامل کرنے کا نام ہے، قرآن میں عبادت و ذاتی اخلاقیات کے علاوہ شہری قوانین، جزائی( جرائم ) اور عالمی قوانین موجود ہیں، گھریلو زندگی، شادی بیاہ، تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل بیان ہوئے ہیں، پس کون سی بات ایسی ہے جو دین سے خارج ہے، معاملات، تجارت، اور رہن( گروی ) رکھنا کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانا جائے تو پھر کس طرح کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی معاملات سے کوئی ربط نہیں ؟
اگر نکاح، طلاق دین کا جز نہ ہوں، اگر تجارت، رہن خرید و فروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا بچتا ہے، ؟
اور آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟
قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے،
اگر کوئی کہے کہ جس دین میں اجتماعی و سیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے ! ٹھیک ہے نہ مانیں ! اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی 2 ارب سے زیادہ مسلمان موجود ہیں، اسی لئے آیت اللہ خامنہائ نے کہا ہے کہ صرف 60 لاکھ یہودیوں کو 2 ارب سے زیادہ مسلمانوں پر ہر گز حکومت کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں دینگے، اب اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو جوابی کاروائی میں اسرائیل نیست ونابود ہو جائے گا، جنگ میں پہل کرنا دین اسلام میں اجازت نہیں ہے، ایران جنگ میں پہل نہ کرکے دنیا کو بتلا رہا ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق و امن و سلامتی کا داعی ہے، جنگ میں پہل کرنے والا ذلیل و رسوا اور شکست خوردہ ہو جاتا ہے، یہ ضابطے قرآن مجید میں موجود ہیں، انہی ضابطوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایرانی حکومت کا غلبہ برقرار ہے، ایرانی حکومت نے ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کئے ہیں، اس لئے اگر کوئی خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کرے، اور من گھڑت تعریف کی بنا پر کہے کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی و اجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے پس اس کے لئے ضروری ہےکہ دین خدا کی معرفت حاصل کرے اس کو سمجھنے کے لئے اپنے طور طریقے اور فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کرے، دین اسلام کی سمجھ قرآن و پیغمبر اور آئمہ اطہار علیہم السّلام کے ذریعے ہی ممکن ہے، ورنہ یورپی و مغربی طرز فکر مسلسل بے دین لوگوں کا پیچھا کر رہی، انقلاب ایران کے خلاف کارروائیاں کرنا مغربی طاقتوں کا مشن ہے ، جو بھی دین اسلام کی معرفت بذریعہ محمد و آل محمد علیہم السّلام نہ رکھے گا یقینا استعماری اور سامراجی قوتوں کا بلا واسطہ یا بلواسطہ ایجنٹوں میں اس کا شمار ہوگا، ایران کے انقلاب کو اگر آج اللہ تعالٰی نے تقویت بخشی ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی تعلیم و تربیت قرآن و سیرت محمد و آل محمد علیہم السّلام کے عین مطابق کی گئی ہے، ان لوگوں کے ایمان کی طاقت کو مغربی طاقتیں کبھی بھی متزلزل نہیں کر سکتیں، ہم پاکستانی عوام کو ایران کا ممنون ہونا چاہئے کیونکہ سب سے پہلے ایران نے ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا تھا، اور آج تک پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، ایرانی صدر کے حالیہ دورہ کے دوران پاکستان میں ایران کے خلاف کچھ نافہم لوگوں نے بے جا پروپیگنڈہ شروع کیا تھا جس کی کڑیاں اور سلسلے مغربی استعماری و سامراجی قوتوں کے ساتھ ملتے ہیں، یہ ان لوگوں کا ہی ایجنڈا جو پہلے دن سے نہ صرف ایران اور پاکستان کے دشمن ہیں بلکہ دین اسلام کے دشمن ہیں، پورے عالم اسلام کے دشمن ہیں، سامراجی قوتوں نے اپنی تمام توانائیاں نہ صرف ایران اور پاکستان کو ختم کرنے کے لئے بروئے کار لائیں ہیں بلکہ عالم اسلام کو کمزور اور ضعیف کرنے کے لئے ہیں، جنگ عظیم دوم کے بعد سامراجی طاقتوں نے پاکستان اور ایران و لبنان کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک میں اپنا تسلط، اور اثرورسوخ برقرار رکھا ہوا ہے ، اسی وجہ سے فلسطینی عوام کو بے دردی سے کچلا جا رہا ہے، اگر تمام اسلامی ممالک ایران، پاکستان، عراق، شام اور لبنان کی طرح صحیح معنوں میں قرآن و سنت پر کاربند ہو جائیں تو یقینی طور پر پورے عالم میں یہود و نصارٰی مغلوب ہوجائیں، مگر افسوس ایسا ممکن نہیں ہے، فقط ایران، پاکستان، شام، عراق اور لبنان ہی صف اول میں چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور فلسطین و کشمیر کی آزادی کا دم بھرتے رہیں گے، چاہے دشمن اسلام جتنی مرضی کارروائیاں کرلے یہ کارروائیاں فقط انقلاب ایران کے خلاف نہیں بلکہ ان ان ممالک کے خلاف کارروائیاں ہیں جو استعماری و سامراجی قوتوں کو اپنا خدا تسلیم نہیں کرتے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔