تحریر: رضی طاہر
سال 1979 میں ایران میں برپا ہونے والا اسلامی انقلاب جدید تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک تھا، جس نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایران کا اسلامی انقلاب شاہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہت کے خاتمے اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس انقلاب نے ایران میں مغربی اثر و رسوخ کو ختم کرنے، اسلامی قوانین کے نفاذ، اور قومی خودمختاری کو مضبوط کرنے کے وعدے کیے۔انقلاب کے بعد ایران میں کئی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔
سب سے پہلے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کیا گیا۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایران میں ایک اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی، جس میں ولی فقیہ کا تصور متعارف کروایا گیا۔ یہ ایک نیا طرزِ حکمرانی تھا جو اسلامی فقہ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا۔ سیاسی نظام صدارتی طرز پر قائم کیا گیا جب کہ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اسمبلی تشکیل دی گئی۔اگر معاشرتی اصلاحات کی بات کریں تو اسلامی قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں ایران میں حجاب کو لازمی قرار دیا گیا، اور مغربی ثقافتی اثرات کو کم کیا گیا۔ تعلیمی اور عدالتی نظام میں اسلامی اصولوں کو متعارف کروایا گیا، جس نے معاشرتی ڈھانچے کو بدل دیا۔اسی طرح معاشی خودمختاری کی اصلاحات نے ایران کو ایک نئی جہت دی۔ ایران نے اپنی معیشت کو مغربی ممالک کی بجائے خود انحصاری کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی، اور تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ، ایران نے زراعت اور دیگر صنعتی شعبوں میں بھی ا نقلابی اقدامات کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں۔ اس دورانیے میں ایران نے تعلیمی میدان میں نمایاں ترقی کی، خاص طور پر سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں، اور دفاعی صنعت میں خودکفالت حاصل کی۔ جوہری ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور خلائی تحقیق کے شعبے میں ترقی ایران کی بڑی کامیابیوں میں شامل ہیں۔
بادشاہ کی حکومت کے وقت ایران 12 ارب ڈالر کا مقروض ملک تھا، آج ایران 4 ارب ڈالر کا مقروض ملک ہے۔جو اس کی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد بنتا ہے۔آج ایران کی جی ڈی پی، پر کیپیٹا تقریبا 6 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ شاہ ایران کے دور میں ایران کی جی ڈی پی 100 سے 110 بلین ڈالر تھی جبکہ آج انقلاب کے 46 سال بعد ایران کی جی ڈی پی 1.85 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایران اب تقریبا 98 ارب ڈالر کا سالانہ بجٹ پیش کررہا ہے، جبکہ انقلاب سے قبل 32 ارب ڈالر کا آخری بجٹ شاہ کے دور میں دیا گیا تھا۔ بجلی کی پروڈکشن کی بات کریں تو ایران اس وقت 367,433 گیگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔جو پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے جبکہ ایران کی آبادی پاکستان سے تین گنا کم ہے۔ زرعی شعبے کی بات کی جائے تو ایران میں زراعت ان کی اکانومی کا 10 فیصد ہے، جس کا شاہ کے دور میں مکمل انحصار درآمدات پر تھا۔انقلاب سے قبل ایران کا شرح خواندگی 50 فیصد سے 55 فیصد تھا جو کہ اب 89 فیصد ہے۔ شاہ کے دور میں سپیس ٹیکنالوجی میں امریکہ کے تعاون سے ایران نے محض ایک سٹیلائیٹ تیار کی لیکن اب ایران سپیس ٹیکنالوجی میں دنیا کے 9 ان ممالک میں شامل ہے جو اپنے کیرئیر کا استعمال کرتے ہیں۔ صرف سال 2024 میں ایران نے 7 سٹیلائیٹس کو مدار میں بھیج کر سپیس ٹیکنالوجی میں کامیابی حاصل کی۔
دسمبر 2024 تک، ایران نے نینو ٹیکنالوجی تحقیق میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور نینو ٹیکنالوجی کی اشاعتوں میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر براجمان ہوا۔2022 میں، ایرانی محققین نے ویب آف سائنس میں 11,473 مضامین شائع کیے، جو نینو ٹیکنالوجی میں دنیا کی مجموعی اشاعتوں کا 4.9% ہیں۔ 2024 کی نیچر انڈیکس ریسرچ لیڈرز رپورٹ کے مطابق، ایران تحقیق کے لحاظ سے عالمی سطح پر 32ویں نمبر پر ہے۔ 2023 کی رپورٹ کے مطابق، ایران عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے سب سے بہترین کلسٹرز میں 34ویں نمبر پر ہے۔ 2023 میں، ایران نے عالمی سطح پر کار کی تیاری میں 16ویں نمبر پر جگہ بنائی، تقریباً 1.188 ملین گاڑیاں تیار کیں۔ یہ کامیابی ایران کو برطانیہ، اٹلی اور روس جیسے ممالک سے آگے رکھتی ہے۔ کھیلوں کے میدان کی بھی بات کرلیتے ہیں۔دسمبر 2024 کے مطابق، ایران کی مردوں کی قومی فٹ بال ٹیم FIFA عالمی درجہ بندی میں 18ویں نمبر پر ہے، اور یہ ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھتی ہےجبکہ پاکستان کو فیفا نے Ban کررکھا ہے۔ایران کی مردوں کی قومی والی بال ٹیم ایشیا میں ایک غالب قوت رہی ہے، جو براعظم میں 2ویں پوزیشن پر ہے اور 2024 کے مطابق عالمی درجہ بندی میں 15ویں نمبر پر ہے۔ایران ایشین گیمز میں ایک مضبوط حریف رہا ہے، جس نے مجموعی طور پر 192 سونے کے تمغے، 202 چاندی کے تمغے، اور 217 کانسی کے تمغے جیتے ہیں، جس کے باعث یہ مجموعی تمغوں کی فہرست میں 4ویں نمبر پر ہے۔ مختلف میدانوں میں یہ سب کامیابیاں جہاں ہیں وہیں پر ایران کو بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور انقلاب کے بعد کا سفر اتنا آساں نہیں رہا۔ایران کے انقلاب کے محض ایک سال بعد امریکی ایماء پر صدام حسین نے ایران پر جنگ مسلط کردی۔یہ جنگ آٹھ سال جاری رہی، جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں اور ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ جنگ کے بعد، ایران کو اپنی معیشت کی بحالی میں کئی سال لگے۔
انقلاب کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جنہوں نے ملکی معیشت کو مشکلات میں ڈال دیا۔ خاص طور پر جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران کو عالمی دباؤ کا سامنا رہا۔ ایران نے خطے میں اپنی سیاسی اور عسکری موجودگی کو بڑھایا، شام، یمن، عراق اور لبنان میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دی، جس کے باعث اسے عالمی سطح پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے کئی عرب ممالک اور مغربی دنیا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔۔ایران میں رجیم چینج کی سازشیں ہوتی رہیں اور انقلاب کو توڑنے کیلئے مقامی مہروں کے ذریعے انتشار پھیلانے کی کوشش ہوتی رہی۔2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد گرین موومنٹ، 2019 کے معاشی بحران پر مظاہرے اور 2022 میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد بڑے عوامی احتجاج دیکھنے میں آئے۔ ایران کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اس نے چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے اور اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب انقلاب کے بعد ایران نے اپنی نظریاتی اور عسکری پالیسیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ اس کا اثر لبنان، شام، یمن اور عراق تک پھیل گیا۔2024 میں، انقلاب ایران کو 46 سال مکمل ہوچکے ہیں، اور یہ ملک کئی چیلنجز کے باوجود اپنی انقلابی پالیسیوں پر قائم ہے۔ ایران کی معیشت مغربی پابندیوں کے باوجود چین اور روس جیسے اتحادیوں کے تعاون سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران میں سماجی آزادیاں اتنی زیادہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندیاں ہیں جبکہ فریڈم آف سپیچ پر بھی قدغن دیکھنے کو ملتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ کیونکہ ہمارا حریف اس میدان میں ہم سے بہت آگے ہے اسلئے ہم اس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
ایران میں دو قسم کے افراد ہیں ایک وہ جو انقلابی ہیں جو ایران پر انقلاب کو فوقیت دیتے ہیں، دوسرے وہ جو ایران سب سے پہلے کی پالیسی پر عمل درآمد ہیں۔ ایران کی خوش قسمتی یہ رہی کہ دونوں طبقات ایران کے مفاد کے خلاف کام نہیں کرتے۔ انقلاب ایران نے ایک نئی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا۔ جس نے نہ صرف ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کو ایک نئی جہت دی بلکہ عالمی سطح پر انصاف کے حصول کی تحریکوں کو بھی مہمیز دی۔ یہ انقلاب محض ایران کی داخلی بیداری تک محدود نہ تھا بلکہ اس نے دنیا بھر کے مظلوم اور محروم طبقات کے لیے ایک نئی قوت اور امید پیدا کی، جو آج بھی غیر ملکی تسلط اور ناانصافی کے خلاف ایک مضبوط علامت کے طور پر قائم ہے۔ اس انقلاب کا اثر عالمی سطح پر محسوس کیا گیا، جہاں اس نے ظلم و جبر کے خلاف برسرِ پیکار اقوام کے حوصلے بلند کیے۔ خاص طور پر فلسطینی عوام کی جدوجہد اس انقلاب کے اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں حق خودارادیت اور مزاحمت کے اصول آج بھی قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کا بنیادی محور ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بیرونی دباؤ اور چیلنجز کے باوجود اسلامی انقلاب کی روح آج بھی زندہ ہے اور دنیا بھر میں آزادی و خودمختاری کے لیے برسرِ پیکار تحریکوں کو حوصلہ دے رہی ہے۔ یہ انقلاب اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انصاف کے حصول کی جدوجہد کسی سرحد کی محتاج نہیں۔ 46 سال بعد، ایران کو اب بھی کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔ معیشت، آزادی اظہار اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات آج بھی زیر بحث ہیں لیکن ایران کے آگے بڑھنے کا سفر جاری ہے۔