تحریر: عاصمہ شیرازی
قبرستانوں میں لکھے کتبے پڑھ کر ماضی کریدیں یا مستقبل کے خواب بُنیں؟ سچ تو یہ ہے کہ نہ ہم ماضی سے سیکھنے کی کوشش میں ہیں نہ ہی مستقبل کے لیے فکر مند۔
یہ سوال اپنی جگہ کہ انقلاب جن معاشروں کا انتخاب کرتا ہے وہ ہم تو ہرگز نہیں۔ انقلاب کے لیے انقلابی درکار ہیں اور یہاں انقلابیوں کا اشتہار ہر روز اخبار میں چھپتا ہے مگر انقلابی حوادث زمانہ سے خائف کسی بہتر وقت اور موسم کے انتظار میں ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں اور حکومتی حلقوں میں غل ہے کہ اب حالات کو بہتر کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہی کہ اب جتنا مملکت کو خطرہ ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ ملک نازک سے نازک ترین موڑ سے گزر نہیں رہا بلکہ آ کھڑا ہوا ہے نہ آگے جا رہا ہے نہ پیچھے مڑ رہا ہے۔ ایک جمود ہے اور یہ جمود سفر کی راہ میں حائل ہے۔
محسوس ہوا کہ ریاست بےحد حساس ہے، اندازہ کر چکی ہے کہ اس نے خود کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ کسی طور اطمینان تھا کہ اب معاملات کو درست انداز میں درست سمت میں لے جانے کی کم از کم کوشش ہو گی مگر برا ہو اس ’مگر‘ کا جس نے ابھرتی امیدوں اور مچلتی خواہشوں پر ایک بار پھر بندھ باندھ دیا۔
موجودہ معاشی حالات متقاضی تھے کہ ایک مجبور مگر متوازن بجٹ پیش کیا جاتا جس میں کم از کم بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا، مگر۔۔۔ عوام پر ٹیکسوں کا ایسا بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ بقول حبیب جالب ’بائیس کروڑ‘ یہ گدھے، جن کا نام ہے عوام وہ ہنہنانے سے بھی گئے ہیں۔
مانا کہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے مگر جس نڈر انداز میں اشرافیہ اور مقتدرہ کو اس بجٹ میں رعایت دی گئی ہے وہ اپنی جگہ حیران کن ہے۔ فوجی اور سرکاری ملازمین کے پراپرٹی بزنس کو دوچند کرنے کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں وہ قابل ستائش یا شاید کچھ کام آئی ایم ایف سے کروانے کے ہیں جو موجودہ حکومت کر نہیں سکتی۔
معاشی استحصال کی نئی شکل سول ملٹری بیوروکریسی کو پراپرٹی میں دی گئی ٹیکس چھوٹ سے واضح ہے۔ کیا یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے، کیا پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں پر بےتحاشا ٹیکس وقت کی اہم ترین ضرورت تھی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ تعداد پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔
یقیناً یہ سب یونہی نہیں ہوا۔ عوام میں پہلے ہی ایک تفریق موجود ہے اور ایسے میں سول اور ملٹری ملازمین کو پراپرٹی ٹیکس میں چھوٹ ایک اور تفریق کو بڑھاوا دے گئی۔ کون نہیں جانتا کہ زمینوں کی خرید و فروخت کس ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ کیا سیاسی حکومت کو اس کے نقصانات کا اندازہ ہے یا بجٹ کے ساتھ ہی ایک اور منی بجٹ کی شُنید ہے۔
موجودہ اسمبلی نے تو بجٹ منظور کر لیا مگر کیا آئی ایم ایف بھی بجٹ منظور کرے گی؟ ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کی ناکامی کے بعد آئی ایم ایف عوام کے جذبات کی ترجمان بن جائے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ کے بعد شور مچانے والی پیپلز پارٹی ایسے رام ہوئی کہ عوام کی تسبیح بھی بھول گئی۔ بجٹ نامنظور کے راگ الاپتی پیپلز پارٹی کے ’تحفظات‘ کن مفادات میں بدل گئے یہ راز بھی اب راز نہیں ہے۔
رہی فارم 45 والی اصلی تے وکھری تحریک انصاف تو وہ محض عمران خان کی رہائی کا راگ ہی الاپتی رہی، عوام کی نمائندہ اصل اپوزیشن کا وجود ایوان میں نظر نہیں آیا۔
لیگی حکومت اپنا ووٹ بنک تو ختم کر ہی چکی ہے سو اب بطور سیاسی جماعت خودکشی پر بھی بخوشی رضامند ہے۔ میاں نواز شریف بجٹ اجلاس ایک بار بھی قومی اسمبلی میں نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینا پسند کیا ہے۔
حالیہ بجٹ میں معاشی ناہمواری نے جس بھونچال کو جنم دیا ہے اس کا شاخسانہ چند عرصے میں سامنے آ سکتا ہے۔ ملک میں کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جو عوامی غم اور غصے کے اظہار کا ذریعہ بنے سو خدشہ ہے کہ کہیں یہ لاوا کسی آتش فشاں کا سبب نہ بنے۔
انقلاب پاکستان کی دہلیز پر لڑکھڑاتی ٹانگوں کھڑا ہے اور کانپتے ہاتھوں دستک بھی دے رہا ہے مگر انقلابی میسر نہیں ہیں۔ عمران خان نے درست پیش بندی کی کہ جولائی اور اگست میں کشمیر جیسی صورت حال ہو سکتی ہے شاید ان کا اشارہ بجٹ کے بعد بڑھنے والے عوامی غم اور غصے کی جانب ہے مگر اس کے لیے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت اور راہنما کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی بیرون جیل قیادت آپس میں دست و گریبان ہے، نہ ہی کوئی نظریہ ان کے پاس ہے اور نہ ہی قیادت ایسے میں عوام کس کی طرف دیکھیں؟
لیگی حکومت اپنا ووٹ بنک تو ختم کر ہی چکی ہے سو اب بطور سیاسی جماعت خودکشی پر بھی بخوشی رضامند ہے۔ میاں نواز شریف بجٹ اجلاس ایک بار بھی قومی اسمبلی میں نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینا پسند کیا ہے۔
اب وہ عوام کے درد میں اجلاسوں سے روٹھ کے بھی نہیں جاتے کیونکہ وہ اب خود سے بھی شاید روٹھ چکے ہیں۔ روٹھنا بنتا بھی ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو