فروری 18, 2025

امریکی نو آبادیاتی حکمت عملی

تحریر: قادر خان یوسفزئی

دنیا میں بہت کم فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو محض اپنی حقیقت سے زیادہ، اپنی غیر معمولی بے خبری اور بے حسی سے دنیا کو ہلا دیتے ہیں، اور غزہ پر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ یقیناً انہی فیصلوں میں شامل ہے۔ امریکی صدر نے یہ منصوبہ پیش کیا ہے جیسے غزہ صرف ایک ریئل اسٹیٹ کی پراپرٹی ہو، جسے چند سرمایہ کاروں اور تاجر حلقوں کی منافع بخش زمین کی طرح سمجھا جائے، اور فلسطینیوں کو ایک اثاثہ سمجھ کر ان کا مستقبل کسی دوسرے ملک میں جبراً مقیم کر دیا جائے۔ ٹرمپ کا یہ منصوبہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ خواہشات کا عکس ہے، لیکن اس میں انسانیت کے ساتھ جتنی بے رحمی کی گئی ہے، اتنی ہی بدترین ذہنیت کا اظہار بھی ہے جو اس وقت کے عالمی سیاستدانوں کی حقیقت سے دور، محض نظریات اور مفادات کی دھند میں ڈوبا ہوا ہے۔

غزہ کی سرزمین میں گزشتہ کئی دہائیوں سے چلنے والی خونریزی اور جنگ کی داستانیں ہر فلسطینی کی تکلیف کی گواہی دیتی ہیں، لیکن ٹرمپ کا منصوبہ ان تکالیف کو بڑھانے کی بجائے مزید جڑوں میں گہرائی پیدا کرنے والا ہے۔ اس میں ایک ایسا انوکھا تجارتی مفاد چھپا ہوا ہے جہاں صرف کچھ ہاتھوں کو فائدہ پہنچانے کا وعدہ، لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کی قیمت پر کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجویز دی ہے، اور ان کے بقول ان افراد کو ”بہتر رہائشی سہولتیں“ ملیں گی۔ لیکن اس ”بہتر“  لفظ کی حقیقت کیا ہے؟ ایک بے گھر انسان جسے اپنی سرزمین سے نکال کر کسی غیر مقامی ملک میں پناہ گزین بنا دیا جائے، کیا وہ ”بہتر“’ زندگی گزار سکتا ہے؟۔ ٹرمپ نے اس بے دخلی کو ”عارضی“ قرار دیا، مگر ان کی زبان میں جو مستقل نوعیت کی باتیں ہیں، وہ اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک فلسطینی اپنی شناخت اور اپنی زمین کی بازیابی کے لئے لڑتے رہیں گے۔

یہ سب کچھ ایک کاروبار کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے جو تجویز پیش کی ہے، اس میں نجی کمپنیوں کو غزہ کی دوبارہ تعمیر کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کی تقدیر پر کھیلنا ہی نہیں بلکہ امریکی کمپنیاں ان کی زندگیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں اتاری گئی ہیں۔ غزہ کی سرزمین جو جنگ اور تباہی کے آثار کا عکس ہے، اب ان سرمایہ کاروں کی جیبیں بھرنے کے لئے  منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک حقیقت کی طرح نہیں بلکہ ایک پراپرٹی کی طرح دیکھا جا رہا ہے، جیسے کاروبار اور تعمیرات کی دکان ہو۔ اسرائیل اور امریکہ کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لئے اس میں غزہ کے عوام اور ان کے حقوق کہیں نظر ہی نہیں آرہے۔ ٹرمپ نے تجویز دی کہ خلیجی ممالک بے دخل فلسطینیوں کے اخراجات اٹھائیں، جبکہ امریکی کمپنیاں تعمیراتی منصوبے کی قیادت کریں۔ اس حکمت عملی کا فائدہ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی مشرق وسطیٰ میں رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری کو پہنچ سکتا ہے۔ امریکی فوجی شمولیت کا نہ ہونا، اس منصوبے میں امریکی فوجی مداخلت سے انکار کیا گیا ہے، مگر اسرائیلی اور نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو مائن ہٹانے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس منصوبے میں کاروباری مفادات اور منافع کے محرکات بھی شامل ہیں۔ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات، ٹرمپ کی لگژری ڈیولپمنٹ برانڈنگ کا غزہ کے بحری ساحل سے ممکنہ تعلق ظاہر ہوتا ہے، جسے کشنر نے 2024 میں ”قیمتی واٹر فرنٹ پراپرٹی” قرار دیا تھا۔ 2014 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے تحت 7.8 ارب ڈالر کے اسرائیلی تعمیر نو منصوبے میں اسرائیلی کمپنیوں نے بڑے معاہدے حاصل کیے، اور یہی ماڈل امریکی کمپنیاں بھی اپنا سکتی ہیں۔

یہ کوئی منصوبہ نہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی جال ہے جس میں عرب ممالک، خاص طور پر اردن اور مصر، کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں پناہ دیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اگر غزہ میں فلسطینیوں  کی سرزمین پر قبضہ جبری لینا ہے تو ان کے حقوق کو پامال کیوں کیا جا رہا ہے؟ ان کی قومی شناخت اور زمین کا مستقبل کیا ہو گا؟ ان تمام سوالات کا جواب ٹرمپ کی پالیسی میں کہیں نہیں ملتا۔ اس کے برعکس، یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک نیا ظلم ہے بلکہ عالمی قانون کی بھی دھجیاں بکھیرنے والا ہے، کیونکہ کسی بھی عوام کو جبری طور پر ان کی زمین سے نکالنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پھر بھی، ٹرمپ کی جانب سے اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی تشویش یا تشخیص سامنے نہیں آتی۔

حماس اور اسرائیل کی یہ لڑائی اپنے مقام پر ایک الجھی ہوئی حقیقت بن چکی ہے، اور اسے محض اس طرح حل کرنے کی کوششیں ایک مزید پیچیدہ صورتحال کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اسرائیل جنگ میں ناکامی کے بعد سمجھتا ہے کہ حماس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی جو امریکی دفاعی ٹھیکیدار فراہم کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے امریکی ساختہ JDAM بموں

اور نگرانی کے نظاموں کے استعمال سے عالمی اسلحہ کی صنعت میں 95 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ ٹرمپ اور اسرائیل کے اس منصوبے کا اثر کیا ہو گا، تو یہ واضح ہے کہ یہ پورے خطے میں نئے بحرانوں کو جنم دے گا۔ یہ محض ایک منصوبہ نہیں، بلکہ عالمی سیاست کا ایک ایسا سنگین جوا ہے جسے ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے چھیڑا ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو، لیکن اس کا آغاز ایک ایسی مصیبت میں ہو چکا ہے جس کا سامنا نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے عالم انسانیت کو کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو یہ ایک ایسا سبق بن جائے گا جس سے انسانیت کی اخلاقی قدریں اور عالمی قوانین مزید کمزور ہو جائیں گے۔

ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ کوئی مرتب حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک موقع پرستی اور نظریاتی جذبے کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ یہ امریکی کمپنیوں کے لئے مختصر مدت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں عرب ریاستیں اس بے دخلی کے خلاف ہیں، اور اردن نے فلسطینیوں کو بے دخل کئے بغیر غزہ کی دوبارہ تعمیر کے متبادل منصوبے پیش کیے ہیں۔ حماس نے اس مزاحمت کو ”امریکی نوآبادیاتی حکمت عملی“ کے خلاف دفاع قرار دیا ہے، جس سے عالمی جنوب میں اس کی حمایت مزید بڑھے گی۔ اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار علاقائی ممالک کی ہم آہنگی  اور فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کی کوششوں پرہے۔ یہ ایک ایسا جوا ہے جس کے انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

9 − 7 =