نومبر 18, 2024

امریکی سفیر کا دورہ گلگت بلتستان ؛ خدشات اور خطرات

تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی

تاریخ بلتستان میں شاید یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ کا کوئی ڈپلومیٹ اس علاقے کا علی الاعلان دورہ کر رہاہے ۔ وہ بھی ایک ایسے موقع پر کہ امریکہ مغربی ایشیا خصوصا فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور غزہ نسل کشی میں عسکری، مالی اور سیاسی مدد کر کے اسرائیل کے ساتھ شریک جرم ٹھہرا ہے۔ کیوں کہ غزہ نسل کشی میں بھر پور امریکی مہلک ہتھیار استعمال ہواہے۔ سیاسی طورپر بھی سکیورٹی کونسل میں بروقت جنگ بندی کے لئے پیش کی جانے والی قرار دادوں کو ویٹو کرکے امریکہ عملا غزہ نسل کشی میں اسرائیل کا شریک جرم رہاہے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا کے حق پسندوں ، خصوصا مقاومت بلاگ اور اس کے حامیوں میں امریکہ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

دوسری طرف سے بلتستان محبان اہلبیت کی سر زمین ہے اور اس علاقے میں مذھبی مراسم انتہائی عقیدت کے ساتھ برپا ہوتے ہیں ابھی محرم الحرام کی آمد بھی بہت نزدیک ہے۔ ایسے میں اچانک امریکی سفیر کا دورے کے اعلان سے کچھ خدشات اور سوالات ہر کسی کے زھن میں اٹھے ہیں۔

امریکی سفیر کے اچانک دورے کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟

امریکی سفیر محرم الحرام کی آمد کے نزدیک کیوں دورہ کر رہاہے؟

امریکی سفیر تین دن اس علاقے میں کیوں ٹھہر نا چاہتا ہے؟

بلتستان والے مقاومت بلاگ کے حامی اور امریکہ اسرائیل کے دشمن ہونے کا دعوا کرتے ہیں، اس کے باوجود، امریکی سفیر کے دورے کو روکنے کے لئے قبل از وقت بھر پور اور جاندار احتجاج کیوں نہیں کیا گیا؟

اس دورے سے علاقے کے لئے مستقبل میں کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟

امریکہ کی اس حساس اور بے آئین خطے پر گہری اور اسٹریٹجیک نظر ہے ۔ مستقبل میں اس خطے کے لئے خطرناک ایجنڈا رکھتا ہے اور۔ یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکہ کے لئے اس خطے سے مربوط تین چیزیں بہت ہی اہم ہیں اور کسی بھی طریقے سے ان پر تسلط جمانے کا شیطانی ارادہ رکھتاہے۔

ایک؛ اس علاقے کی مخصوص آیڈیالوجی کی حامل اکثریتی آبادی کے مستقبل میں اثرات۔

دوسری؛ اس علاقے کے ارد گرد اہم ممالک کی عالمی سطح پر ابھرتی طاقت اور حیثیت۔

تیسری؛ اس علاقے میں موجود دوسرا بلند ترین میدان دیوسائی کی جغرافیائی اسٹریٹجیکل اہمیت۔

امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ دنیا میں شیعہ مکتب کے پیرو کار ان کے شیطانی مقاصد کے حصول کے لئے مانع ہیں یعنی مکتب تشیع کی الہی آیڈیالوجی؛ ظالم ستمگر، استکبار، باطل اور طاغوت کی مخالف ہے۔ یہ مکتب ان کے ساتھ تعاون کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہیں۔ یہ بھی بخوبی جان تاہے کہ اس آیڈیالوجی کا سر چشمہ امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی ہے۔

اسی لئے امریکہ اس مکتب کے پیروکاروں کے ساتھ علی الاعلان مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔ کیوں کہ امریکہ نے محور مقاومت میں شامل ممالک اور شیعہ عقیدتی گروہوں کے ساتھ تقابل میں یہ تجربہ کرکے ناکام رہاہے۔

اس نا کام تجربے کے بعد، شکست ناپذیر آیڈیالوجی کے حامل مکتب تشیع کے عقائد اور نظریات کو سست کرنے کے لئے امریکہ نے پوری دنیا میں تشیع کے خلاف سافٹ وار کا آغاز کیا ہوا ہے اور گلگت بلتستان بھی قطعا اس وار کا حصہ ہے۔ اسی لئے اس خطے میں ایک عرصے سے کبھی این جی اوز، کبھی آئی ایم ایف اور کبھی سیاحتی کمپنیوں کے زریعے عوام کے عقائد اور دینی اقدار اور ثقافت کو خراب کرنے کی کوشش میں لگا ہواہے۔ گذشتہ سالوں ، مہینوں اور ہفتوں میں سہولت کاروں کے زریعے جو غیر شرعی، غیر اخلاقی اور غیر عرفی کچھ ایکٹوٹیز انجام پائی ہیں، وہ اسی سافٹ وار ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ تاریخ نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جب تک کسی دین دار معاشرے میں لوگوں کے دینی عقائد، اخلاقی اقدار اور ثقافت کو خراب نہ کیا جائے، ان کی غیرت باقی رہتی ہے۔ دینی غیرت، استکبار کے شیطانی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کی مثالین ہمیں تاریخ میں اندلس کی شکل میں مل جاتی ہیں۔ جب تک اس معاشرے میں دینی غیرت تھی دشمن ان کو شکست نہ دے سکا لیکن جوں ہی معاشرے سے دینی غیرت چھن گئی ان پر دشمن غالب ہوا۔ آج کی زندہ مثال آزربائجان ہے۔ جہاں استکبار نے ایک بے دین سکیولر شخص؛ رحمن علی اف کو، دین دار عوام پر ایک عرصے سے مسلط کیا ہوا ہے ۔اس نے غیر دینی شیطانی اقدامات کے زریعے آرام آرام سے لوگوں کے عقائد اور اخلاقی اقدار کو سست کردیا اور ان کو بے دینی پر گامزن کرکے غیرت چھین لی۔ جس کے نتیجے میں آج آزربائجان استکباری قوتوں امریکہ اور اسرائیل کی چراگاہ بن گیا ہے اور وہاں کی شیعہ اکثریتی آبادی میں ان کا مقابلہ کرنے کی جرئت نہیں ہے کیوں کہ جرئت کا سر چشمہ غیرت ہے جب غیرت چھن لی گئی ہے تو جرئت کہا رہے گی ۔ اگر بلتستان کے علما، سیاست دان اور عوام ہوشیار نہ رہیں تو عالمی استکبار نے بلتستان کے شیعوں کے لئے بھی آزربائجان جیسا نقشہ بنایا ہے۔ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کے غزہ پر مسلسل حملوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی عروج پر ہے اور ادھر سے محرم الحرام کی آمد نزدیک ہے۔ ایسے میں امریکی سفیر کا اچانک دورہ، بلتستان کے عوامی رد عمل اور غم و غصے کی مقدار کو جانچ نے اور اپنی سابقہ فعالیتوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک ٹیسٹ ہے ۔ اگر امریکی سفیر کے دورے کے خلاف گلگت بلتستان کے عوام نے بھر پور احتجاج کر کے دورے کو نہ روکا یا اس کو علاقہ بدر نہ کردیا، تو پھر امریک کو علاقے میں تبدیلی کا توہم پیدا ہوجائے ہوجائے گا۔ اسی امید میں وہ مستقبل میں بھی اپنا نا محسوس سافٹ وار جاری رکھے گا، مستقبل میں مختلف بہانوں سے اس علاقے میں امریکیوں کی رفت آمد میں اضافہ ہوجائے گا جوں ہی احساس کرے گا کہ لوگوں کے عقائد سست اور اخلاقی اقدار تبدیل ہوگئے ہیں، تو بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اگلا قدم دیوسائی میں جمائے گا۔ امریکہ بھانپ چکاہے کہ دیوسائی کی جغرافیائی اسٹریٹجیکل اہمیت ہے کیوں کہ اس میدان کے اردگرد چار ممالک یعنی چین، انڈیا، روس اور پاکستان ایٹمی طاقت کے حامل ہیں اور دوسری طرف سے چین اور انڈیا اقتصادی حوالے سے بھی دنیا کے افق پر نو ظہور طاقتیں بن کر ابھر رہے ہیں اور عالمی سیاست اور عالمی اقتصادی و حقوقی اداروں میں اثر گزار ہیں۔ اسی لئے امریکہ دنیا پر اپنی امپراتوری قائم رکھنے کے لئے کسی بھی صورت میں ان ممالک کو کنٹرول اور تحت نظر رکھنا چاہتاہے بتایا جاتاہے کہ اس کام کے لئے جغرافیائی حوالے سے موزون اور مناسب جگھوں میں سے ایک جگھہ دیوسائی میدان ہے۔ اس بلندترین میدان کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کر کے مذکورہ طاقت ور ممالک کی نقل وحرکت اور فعالیتوں کو مونیٹرنگ کرسکتاہے اور ضرورت پڑی تو ان کے خلاف اقدام بھی کرسکتاہے۔ یوں امریکہ نئی ابھرتی ہوی طاقتوں کو کنٹرول کرکے دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتاہے امریکہ دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کثیر الجہتی طاقتوں کو وجود میں آنے سے روکنا چاہتاہے۔ لہذا بلتستان کے عوام کو ہوشیاری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی غفلت کی وجہ سے امریکہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے اس اہم اور حساس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع نہ ملے۔ خدا نا خواستہ اگر امریکہ کو گلگت بلتستان کی کسی جگہ پاوں جمانے میں کامیابی ملی تو یہ خطہ مستقبل میں استکباری شیطانی طاقتوں کے مذموم مقاصد کے لئے آزربائجان کی طرح آماج گاہ بن جائے گا۔ اور مغربی ٹقافتی یلغار کی وجہ سے نہ لوگوں کا دین و ایمان سالم رہے گا نہ ناموس کی عزت محفوظ رہے گی اور نہ ہی مردوں کی غیرت و حمیت۔ یوں یہاں کے عقیدتی شیعہ مستقبل میں عالمی الہی انقلاب میں مثبت کردار ادا کرنے سے رہ جائیں گے اور مستقبل میں پشیمانی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 × 2 =