تحریر: حسین شریعتمداری
اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے حوالے سے روزنامہ کیھان کے مدیر کی رائے پر مبنی چند نکات حسب ذیل ہیں:
1۔ جن لوگوں نے ان دنوں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا شیطانی آلہ تیار کیا ہے اور اس کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے گلے پھاڑ رہے ہیں، وہ یا تو “احمق” ہیں یا “غدار” اور دونوں صورتوں میں وہ نظام کی اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لائق نہیں۔ امریکہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کو ایک اسٹریٹجک ہدف کے طور پر آگے بڑھاتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس ملک میں (ریپبلکن اور ڈیموکریٹک) حکومتوں کی تبدیلی سے یہ اسٹریٹجک ہدف تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت اسلامی ایران کے بارے میں امریکہ کے چالیس سال سے زائد سالوں کے موقف اور اقدامات کا مختصراً جائزہ لینے سے ہی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس حد تک کہ امریکہ، امام خمینی کے الفاظ اور رہبر معظم انقلاب کے اسی طرح کے نقطہ نظر میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز نہیں آیا، اور اگر اس نے کسی بھی مرحلے پر دشمنانہ اقدام سے گریز کیا ہے، تو وہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ وہ سمجھوتہ کرنے کی پوزیشن میں تھا۔
2۔ فوج کی فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے کل کے بیانات عقل اور تجربے کا مرکب تھے، اسباب جو کسی شک و شبہ سے بالاتر تھے، اور امریکہ کی طرف سے وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد اعتماد کرنی کی بہت کم گنجائش بچتی ہے۔ تجربہ کہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سمجھداری، عقلمندی اور شرافت پر مبنی عمل نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی اس سے پہلے بھی بار بار اس نکتے پر زور دے چکے ہیں اور اس کی وجہ بھی بیان کر چکے ہیں، جن میں سے ایک مثال ۵ دی ماہ ۱۴۰۱ کو بسیجیوں کے اجتماع میں دی گئی، جہاں انہوں نے پہلے ان لوگوں سے شکایت کی جو ان کے بقول “سیاسی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرتے ہیں” اور “سیاست کرنے اور دنیا کے حالات سے آگاہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں” لیکن مسائل کا حل امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں تلاش کرتے ہیں! پھر ایک حکیمانہ اور مستدل بیان میں فرما چکے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، ہم جھگڑا نہیں چاہتے، سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ کیا بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور امریکہ سے عہد لینے سے مسئلہ حل ہوجائیگا؟ ہم بیٹھ کر امریکہ سے مذاکرات کریں، عہد لیں کہ آپ کو یہ کام کرنا ہے، یہ کام نہیں کرنا، کیا مسئلہ حل ہوگا؟ الجزائر کے بیانئے کے معاملے میں، ۶۰ میں یرغمالیوں کی آزادی کے معاملے میں، امریکہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ میں اس وقت مجلس کا نمائندہ تھا، البتہ میں مجلس میں نہیں تھا، میں اہواز میں محاذ جنگ پر تھا، اس وقت تہران میں الجزائر کے توسط سے بات چیت ہوئی۔ البتہ مجلس کی منظوری سے ہوا یہ غیر قانونی کام نہیں تھا، انہوں نے معاہدہ کیا، متعدد عہد لیے کہ ہماری دولت واپس کرینگے، پابندیاں اٹھائیں، ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہیں کریں گے، اور ہم بھی یرغمالیوں کو آزاد کریں گے۔ ہم نے یرغمالیوں کو آزاد کیا، کیا امریکہ نے اپنے عہد پر عمل کیا؟ کیا امریکہ نے پابندیاں اٹھائیں؟ کیا امریکہ نے ہماری ضبط شدہ دولت ہمیں واپس کی؟ نہیں، امریکہ عہد پر عمل نہیں کرتا، یہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔ یا ایٹمی معاہدہ کے بارے میں امریکیوں نے کہا کہ جوہری سرگرمیوں کو کم کریں، انہیں یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہیں کہ یہ سرگرمیاں مکمل طور پر بند کریں، کہا کہ اس کی مقدار میں کمی کریں، تو بدلے میں ہم یہ کام کریں گے، پابندیاں اٹھائیں گے، یہ کام کریں گے، وہ کام کریں گے، کیا انہوں نے یہ کام کیے؟ نہیں کیے۔ امریکہ کیساتھ مذاکرات مسائل کا حل نہیں ہیں۔
3۔ پچھلے ہفتے فارن افیئرز میں ریچارد نفیو کی تحریر تھی، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے معمار ہیں، جنہوں نے پابندیوں اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مقاصد کے حصول کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مذاکرات ہی ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے قابو میں رکھنے اور الجھائے رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کو ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ لیکن امریکہ کیساتھ مذاکرات کے حامی مشکلات حل کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حل امریکہ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے نکل آئے گا۔
4۔ اب ان لوگوں سے جو امریکہ سے مذاکرات کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں، یہ سوال ہے کہ کیا وہ اس قدر واضح اور بدیہی حقیقت اور امریکہ کیساتھ مذاکرات سے پہنچنے والے نقصان کو نہیں سمجھتے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ کم فہمی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہے، اور میری نگاہ میں انہیں نظام کی ذمہ داریوں میں نہیں ہونا چاہیے، اور اگر جواب اثبات میں ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تباہ کن نوعیت سے آگاہ ہونے کے باوجود وہ اس پر اصرار کیوں کرتے ہیں، تو کیا ان کا اصرار خیانت کے علاوہ کسی اور نام سے جانا جا سکتا ہے؟