فروری 20, 2025

امریکہ اور اسرائیل کی بے حسی، عربوں کی بے بسی

تحریر: قادر خان یوسفزئی

کہانی پرانی ہے، صرف کردار بدل رہے ہیں۔ ایک سرزمین، جہاں تاریخ کی پرتوں میں بربادی کے نقوش ثبت ہیں، جہاں زیتون کے درختوں کے سائے میں کبھی فلسطینی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں کھنڈرات، آگ اور گولیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ فلسطین ہے۔ وہی فلسطین جس کے باسیوں کو ہر چند دہائیوں بعد بتایا جاتا ہے کہ ”یہ زمین تمہاری نہیں“،وہی فلسطین جہاں گھروں کے دروازے رات کے اندھیرے میں توڑے جاتے ہیں، جہاں بستیاں مسمار کر دی جاتی ہیں، جہاں تاریخ کو بے رحمی سے کھرچ کر مٹایا جا رہا ہے۔

اور اب ایک نیا سودا تیار ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق”امن“ کے لیے ضروری ہے کہ 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر دوسرے عرب ممالک میں بسا دیا جائے، جبکہ غزہ کو ایک تفریحی مقام میں تبدیل کیا جائے۔گویا فلسطینی ایک بوجھ ہیں، ایک مسئلہ ہیں، ایک ایسا زخم ہیں جسے امریکہ اور اسرائیل کسی ”سیاسی سرجری“ سے کاٹ کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فلسطینی کہاں جائیں؟، کیا وہ اپنے آبائی گھروں، اپنی زمینوں، اپنی قبروں اور اپنے ماضی سے یوں دستبردار ہو جائیں جیسے کوئی پرانا کوٹ اتار کر رکھ دے؟ ، کیا وہ اپنی شناخت اور اپنی تاریخ کو خیر باد کہہ دیں اور کسی اجنبی سرزمین پر مہاجر بن کر زندگی گزاریں؟

یہی وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں امریکہ اور اسرائیل کی بے حسی چھپی ہے، عربوں کی خاموشی دفن ہے اور بین الاقوامی برادری کی بے ضمیری عیاں ہے۔

یہ سودا کس کے حق میں ہے؟

یہ منصوبہ اسرائیل کے حق میں ہے، امریکہ کے حق میں ہے، لیکن فلسطینیوں کے حق میں ہرگز نہیں۔ ذرا سوچیں،20 لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دیگر عرب ممالک میں بسایا جائے گا، کیا صرف عرب ممالک ان کی بحالی پر اربوں ڈالر خرچ کریں گے۔ غزہ پر امریکہ کا قبضہ ہوگا، اور اسے ایک پر تعیش ”تفریحی مقام“ میں تبدیل کر دیا جائے گا گویا فلسطینیوں کو بے وطن بھی کر دیا جائے، عربوں کی تجوریاں بھی خالی کر دی جائیں، اور اسرائیل کو ایک اور زمین تحفے میں دے دی جائے!

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو کمزور ہوتا ہے، وہی سب سے پہلے بیچا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی بے وطنی کا سودا کوئی نئی بات نہیں۔

یہ 1917 میں بالفور ڈیکلیریشن سے شروع ہوا، یہ 1948 میں اسرائیل کے قیام سے آگے بڑھا، یہ 1967 میں یروشلم پر قبضے سے مضبوط ہوا، یہ 1993 میں اوسلو معاہدے کے دھوکے میں چھپایا گیا، اور اب 2025 میں فلسطینیوں کو مکمل بے دخل کر کے ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخرعرب ممالک ہی  اس کا حصہ کیوں بنیں؟ کیوں وہ اپنے ہی بھائیوں کو بے وطن کریں؟،کیوں وہ اپنی دولت امریکی منصوبوں پر خرچ کریں؟،عرب لیگ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب ممالک کی مخالفت اکثر علامتی ہوتی ہے، عملی نہیں۔

یہ منصوبہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے، اور قیدیوں کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ابھی حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا، جس کے بدلے میں 369 فلسطینی قیدی رہا کیے گئے۔لیکن امریکہ کا موقف واضح ہے کہ جب تک حماس موجود ہے، امن ممکن نہیں!

یہ جملہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ہے اور اس جملے میں ہی فلسطین کی ساری کہانی چھپی ہے۔ امریکہ درحقیقت یہ کہہ رہا ہے کہ یا تو حماس کو ختم کر دو، یا پھر جنگ جاری رہے گی۔یہ جملہ اسی امریکی خارجہ پالیسی کا تسلسل ہے جو ہمیشہ اسرائیل کے لیے نرم اور فلسطینیوں کے لیے سخت رہی ہے۔ ٹرمپ نے واضح دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہفتے کے روز تک تمام یرغمالیوں کو نہ چھوڑا تو وہ اسرائیل کو معاہدے ختم کرنے اور تباہی مچانے کی ہدایت کریں گے۔ یہ دھمکی صرف حماس کے لیے نہیں، یہ پوری فلسطینی قوم کے لیے ہے۔  یہ دھمکی اس نظریے کے خلاف ہے جو فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر جینے کا حق دیتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ فلسطین کا سودا کیا جا رہا ہے۔ پہلے بھی”صدی کا معاہدہ“ آیا تھا، جس میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔  پہلے بھی ”ابراہام معاہدہ“ آیا تھا، جس میں عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اور اب ”غزہ منصوبہ“ آیا ہے، جس میں فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے مکمل بے دخل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔  عرب ممالک نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا، لیکن کیا وہ واقعی فلسطینیوں کے ساتھ ہیں؟ کیا وہ اپنی تجوریاں خالی کر کے ان مہاجرین کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں؟  یا پھر وہ صرف علامتی قراردادیں پاس کر کے امریکہ کے سامنے سر جھکانے کو ہی”سفارت کاری“ سمجھتے ہیں؟یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ فلسطین کا مقدمہ کون لڑے گا؟، عالمی برادری؟ نہیں۔  عرب ممالک؟ شاید نہیں۔ مسلم دنیا؟ شاید نہیں۔

یہ مقدمہ صرف وہی فلسطینی لڑیں گے، جن کے گھروں کے دروازے توڑ دیے جاتے ہیں، جن کے بچوں کو سڑکوں پر قتل کیا جاتا ہے، جن کی ماؤں کی چیخیں دنیا کے کانوں میں سنائی نہیں دیتیں۔  یہ مقدمہ صرف وہی فلسطینی لڑیں گے، جنہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی زمین اب ان کی نہیں رہی۔لیکن تاریخ گواہ ہے، زمین کو تقسیم کیا جا سکتا ہے، لیکن یادوں کو نہیں۔ قوموں کو بے گھر کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے خوابوں کو نہیں۔ بستیوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے، لیکن جدوجہد کو نہیں۔ یہ مقدمہ صرف وہی نوجوان فلسطینی لڑیں گے، جو پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ مقدمہ وہ مائیں لڑیں گی، جو ہر روز اپنے بیٹوں کے لاشے اٹھاتی ہیں۔  یہ مقدمہ وہ بچے لڑیں گے، جو صبح جاگتے ہیں تو انہیں اپنے والدین نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ رات کے اندھیرے میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہوتے ہیں۔

لیکن تاریخ کہتی ہے کہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ اور یہی فلسطینیوں کی اصل طاقت ہے۔

کیا فلسطین بچ پائے گا؟، یہ سوال آج بھی زندہ ہے، لیکن اس کا جواب شاید کسی قرارداد یا کسی منصوبے میں نہیں۔   یہ جواب شاید فلسطین کے ان بچوں کی آنکھوں میں ہے، جو پتھر لیے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ جواب شاید ان ماؤں کے آنسوؤں میں ہے، جو اپنے شہید بیٹوں کے جنازے اٹھا رہی ہیں۔ فلسطین صرف زمین کا نام نہیں، یہ ایک خواب کا نام ہے، ایک جدوجہد کا نام ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ خوابوں کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

15 − nine =