اگست 27, 2025

تحریر: سجاد حسین آہیر

ہر معصوم ھادی ؑنے اپنے دور کے طاغوت کے عزائم اور سازشوں کا حکمت اور تدبر کے ساتھ مقابلہ کیا یہی وجہ ہے کہ ظاہری طور پر ہر امامؑ کا کردار دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے ایک نے خاموشی اختیار کی تو دوسرے نے جنگ ایک نے صلح کا سہارا لیا تو دوسرا راہ شہادت کو اختیار کرتے ہوئے نظر آیااس کی وجہ ایک دور کے طاغوت کی سازشوں کا دوسرے کی سازشوں سے مختلف ہونا ہے۔

بد قسمتی سے تاریخ میں ہارون الرشید کے زمانہ میں دس سالہ زندگی اور اس کی موت کے بعد بغداد اور خراسان کے درمیان ہونے والی جنگ کے پانچ سالوں میں امامؑ کی سیرت کو کھول کر بیان نہیں کیا گیا لیکن تدبر کے نتیجے میں اس دور میں امام ؑ کے مبارزہ کا علم ما سبق معصومینؑ کی سیاسی سیرت اور مبارزہ سے لگایا جا سکتاہے۔ کیوں کہ امامؑ بھی انہی اھداف کی پیروی کر رہے تھے جو آپ کے اجداد ؑ کے پیش نظر تھے۔

لیکن اصلی بحث میں داخل ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ موضوع میں موجود چند ضروری کلمات کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ امام کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے ۔

مبارزہ :

مبارزہ کا اصلی مادہ” ب ر ز "ہے اور باب مفاعلہ سے بارز کا مصدر ہے جس کا استعمال” اس نے اپنے دشمن کا مقابلہ کیا ،اس کے مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور اسے تلوار وغیرہ سے قتل کر دیا” کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ” اس نے اپنے دشمن کو کلام کے ذریعے پچھاڑا اور اس نے اپنی کرامت کے دفاع کے لیے دشمن کا مقابلہ کیا” کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

پس اپنے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے مؤثر اور مناسب حکمت عملی اختیار کرنا مبارزہ کہلاتا ہے۔

طاغوت:

«طغی» و «طغیان» حد سے گزرنے کو کہا جاتا ہے وہ حد جسے عقل سلیم اور شارع مقدس نے معین کیا ہو۔۔دینی اصطلاح میں بھی طاغوت طغیان اور حد سے تجاوز کرنے کے معانی میں استعمال ہوا ہے
اسطرح طاغوت کے مصادیق میں سے ایک کفر کے اولیاء اور ستمگر حکمران شمار ہوتے ہیں کیوں کہ ہر وہ مانع جوخدا اور حق کی طرف ھدایت بشری کی راہ میں رکاوٹ بنے طاغوت کہلاتا ہے تو ستمگر حکمران دو لحاظ سے طاغوت کے مصادیق بنتے ہیں ایک تو یہ کہ اپنی حکمرانی میں حدود الہی سے تجاوز کرتے ہیں اور دوسرا ھدایت بشری کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں.

قرآن كریم میں کلمہ «طاغوت» آٹھ موارد میں استعمال ہوا ہے سوره بقره کی، آیات 256 و 257; نساء آیات 6، 7 و 51; مائده آیه 60; نحل آیه 36; اور زمر آیه 17 میں کلمہ طاغوت کلی طور پر دو اصطلاحی معانی میں استعمال ہوا ہے۔

ایک اللہ کے علاوہ جن کو مورد پرستش قرار دیا گیا جیسےبتوں شیطان اور جنوں وغیرہ کو چاہے وہ نظام ہو یا فرد ہو یا حکومت ہو جو انسانوں کو حق کے راستے سے منحرف کرے، اللہ کی بجائے غیر خدا کی پرستش یا محوریت کی طرف لے جائے.

اور دوسرا ان کی پوجا کرنے والوں کو ،اور حد سے تجاوز کر کے ان کی پرستش میں گہر جانے والوں کو بھی طاغوت کہا گیا ہے۔

امام رضاؑ کا ایک مختصر تعارف:

امام علی بن موسی الرضاؑ رسول گرامی ﷺ کی نسل سے ان کے آٹھویں جانشین اور شیعوں کے امام ہیں ۔انہوں نے ۳۵ سال کی عمر میں امامت کی سنگین ذمہ داری اپنے کندہوں پر لی ان کی حیات طیبہ عباسی خلافت کے زمانہ میں تھی کہ جنہوں نے ہرطرح کا ظلم و ستم روا رکھا اور بالاآخر مامون عباسی نے ۵۵ سال کی عمر میں انہیں شہید کروا دیا۔سب سے پہلےہم امام کی زندگی پر ایک تعارفی نظر ڈالتے ہیں ۔

نام،لقب اور کنیت:

آپ کا نام علی کنیت ابوالحسن اور سب سے زیادہ مشہور لقب رضا ہے ۔نویں امام محمد تقیؑ اس لقب کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ۔کہ خداوند نے ان کا نام رضا رکھا ہے اس لیے کہ آسمان پر خداوند متعال اور زمین پر پیامبر ﷺ اور آئمہ اطہارؑان سے راضی اور خوش تھے اور انہیں امامت کے لیے انتخاب کیا ہے اسی طرح ان کے عزیز و اقارب اور ان کے دشمن بھی ان سے راضی اور خوش تھے۔

آپ کا ایک اور مشہور لقب عالم آل محمدؑ ہے ۔یہ لقب آپ کی علم و دانش کو بیان کرتا ہے امامؑ نے عرصہ حیات میں مختلف ادیان ومذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے کیے اور ہمیشہ کامیاب ہوئے ۔امام کا علوم پر مسلط ہونا ان کے دلائل امامت میں سے ایک ہے۔

والد اور والدہ گرامی:

آپ کے والد بزرگوار کا نام امام موسی کاظمؑ کہ ہارون عباسی کے ہاتھوں ۱۸۳ھجری میں شہید ہوئے اور ان کی والدہ گرامی کا نام نجمہ خاتونؑ ہے ۔

امام کی ولادت :

امام رضا ؑ ذیقعد ۱۲۶ ھ میں مدینہ میں متولد ہوئے آپ کی والدہ گرامی سے نقل ہوا ہے ۔جب حضرت میرے شکم میں تھے تو مجھے کبھی حمل کی سنگینی محسوس نہیں ہوئی ،جب میں سوتی تو خدا وند متعال کی تسبیح و تمجید کرنے کی آواز اور لاالہ الا اللہ کا ذکر سنتی تھی ۔ اور جب آپ متولد ہوئے تو دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور اپنے لبوں کو حرکت دی ،گویا کچھ کہہ رہے تھے۔

امام مدینہ میں :

امام رضاؑ مرو کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مدینہ میں سکونت پذیر تھے اس ہجرت سے پہلے امامؑ نے زیادہ وقت مدینہ میں گزارا تھا لیکن پوری اسلامی سرزمین پر ان کے پیروکار موجود تھے۔

امام ولایتعھدی کے بارے میں مامون سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں” اس ولایت عھدی نے میرے مقام ومرتبہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جب میں مدینہ میں تھا تو شرق و غرب میں میری اطاعت کی جاتی تھی اور اگر میں مدینہ کی گلیوں سے گزرتا تو مجھ سے زیادہ معزز کوئی نہیں تھا۔

حضرت امام رضاؑ کی امامت:

کئی بار آپ کے آباواجدادؑ اور پیامبر ﷺ کے توسط سے آپ کی امامت کا اعلان ہو چکا تھا خاص طور پر امام کاظمؑ نے کئی بار اپنے بعد امام رضاؑ کا اپنے بعدامام ہونے کے حوالے سے تعارف کروایا۔
امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ایک بیان یوں کرتا ہے ۔ہم ساٹھ افراد بیٹھے تھے کہ موسی بن جعفرؑ ہمارے پاس تشریف لائے اور اپنے فرزند علی بن موسی رضاؑ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا امامؑ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں نے کہا آپ ہمارے سردار اور بزرگ ہیں ۔امام نے فرمایا میرا نام اور لقب کیا ہے؟ میں نے عرض کی آپ موسی بن جعفر بن محمدؑ ہیں۔فرمایا یہ میرے ساتھ کون ہے؟عرض کی یہ علی بن موسی بن جعفرؑ ہیں۔فرمایا تم گواھی دو میری زندگی میں یہ میرا وکیل اور میرے مرنے کے بعد میرا وصی ہے۔
امام صادقؑ بارہا امام کاظمؑ سے فرماتے تھے کہ عالم آل محمدؑ تمھاری نسل میں سے ہے اور تمھارے بعد وہ تمھارا وصی ہے۔

سیاسی صورتحال:

امام رضاؑ کی مدت امامت تقریبا ۲۰ سال تھی کہ جسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔امامت کے پہلے دس سال جب ہارون کا زمانہ اقتدار تھا۔
۲۔اس کے بعد ۵ سال امین جب مسند خلافت پر مسلط تھا۔
۳۔امامت کے آخری پانچ سال جب قلم رو اسلامی پر مامون کا قبضہ تھا۔
ہارون کا دور امام رضاؑ کے لیے پر مشقت اور دردناک زمانہ تھا کہ اسی دور میں والد کی شہادت ہوئی اور علویان نے بہت سے رنج اٹھائے ہارون نے امام رضاؑ کو بھی شھید کروانے کی کوشش کی لیکن اسے اپنے اس ناپاک منصوبہ پر عمل کرنے کی فرصت نہ ملی۔
ہارون کی وفات کے بعد امین مسند خلافت پر براجمان ہوا اس دور میں حکومت متزلزل تھی اور امامؑ کو کسی حد تک سکون کا سانس ملا بالاخر مامون نے امین کو قتل کروا کے خلافت کا لباس زیب تن کیا۔مامون نے مرو میں قیام کیا اور فضل بن سھل کو اپنا وزیر و مشیر قرار دیا علویان مامون کی حکومت کے لیے خطرہ تھے جو دونوں بھائیوں کے داخلی اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔اور عوام بھی حکام کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ان کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھے۔مامون اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھا۔
اس بارے میں مامون نے فضل بن سھل سے مشورہ کیا۔اور یہ طے پایا کہ امامؑ کو خلافت کی پیشکش کی جائے۔اور خود مامون خلافت سے کنارہ کشی کرے۔اس کا نتیجہ دو صورتوں سے خالی نہ تھا۔امامؑ قبول کرلیتے یا نہ کرتے ہر دو صورت میں مامون اور عباسی خلافت کی کامیابی تھی۔اگر امامؑ قبول کرلیتے تو مامون کی شرائط کے مطابق اس کو ولیعہدی ملتی جو اس کی مشروعیت کے لیے کافی تھی۔ اس کے بعد مخفیانہ طور پر امامؑ کی زندگی کا خاتمہ کرسکتا تھا۔تاکہ حکومت شرعی اور قانونی طور پر اس کے پاس آجائے اور اس طرح علویان بھی حکومت سے راضی ہو جاتے اور عباسی حکومت کے خلاف ہونے والے قیام اپنی جاذبیت اور مشروعیت سے ہاتھ دو بیٹھتے مامون کی یہ سوچ تھی اگر امامؑ خلافت کی پیشکش قبول نہ کریں تو انہیں زبردستی اپنا ولیعہد بنایا جائے تا کہ حکومت کو مشروعیت حاصل ہو سکے۔
دوسری طرف امامؑ کے روابط اور نقل و حرکت کی مکمل طورپر نگرانی ہو سکتی تھی اس کا یہ بھی گمان تھا کہ اگر امامؑ خلافت کو قبول نہیں کریں گے تو پیروان امامت سوالات اٹھائیں گے ، امامؑ مورد تنقید قرار پائیں گے۔اور اپنا مقام کھو بیٹھیں گے۔

خراسان کی طرف سفر:

مامون نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے خاص سپاہیوں کو مدینہ بھیجا تاکہ حضرتؑ کو زبردستی خراسان لے آئیں اور اسی طرح یہ بھی حکم دیا کہ حضرتؑ کو ان راستوں سے لایا جائے جہاں پر شیعوں سے کم واسطہ پڑے۔ اس زمانہ میں اصلی راستہ کوفہ،جبل،کرمان اور قم تھا جو تشیع کی قدرت کے بڑے مراکز تھے۔انہیں ڈرتھا کہ شاید شیعہ امامؑ کے آنے میں رکاوٹ بنیں لہذا امامؑ کو بصرہ،اہوازاور فارس کی طرف سے مرو لایا گیا۔مامون کے جاسوس مسلسل نگرانی کررہے تھے اور مسلسل اطلاعات پہنچا رہے تھے۔

شھادت:

جب مامون اور عباسی خلافت کی مشینری اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئےکار لاکر امام کے مبارزہ کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو امامؑ کے وجود اقدس کو ختم کرنے کے درپے ہوئے گویا یہ طاغوت کی شکست کا اعلان تھا۔امامؑ کی شھادت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ مامون نے زہر آلود انار حضرت کو دیااور یہ اصرار کیا کہ اسے تناول فرمائے امامؑ نے کھانے سے گریز کیا مامون نے امامؑ کو قتل کی دھمکی دی۔حضرت نے مجبور ہو کر اس زہر بھرے انار سے کھایا چند گھنٹے گزرنے کے بعد زہر نے اپنا اثر دکھایا اور امام کی حالت دگرگون ہو گئی دوسرے دن صبح کے وقت ۲۹صفر ۲۰۳ ھ کو امام شھادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔

دفن:

امام رضاؑ کے فرزند ارجمند اور ان کے بعد والے امام حضرت محمد تقی جوادؑ نے خدا کے ارادہ سے دشمن کی آنکھوں سے مخفی ہو کران کے جسد اقدس کو غسل و کفن دیا ۔نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں مشہد مقدس میں دفن کردیا۔
امام ؑ کی پوری زندگی طاغوت کے ساتھ مبارزہ پر محیط ہے لیکن اس مختصر مقالہ میں اتنی وسعت نہیں کہ اس سب کو تحلیل کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔ لہذا امامؑ کے مبارزات کے دو اہم پہلوؤں کو مختصرا بیان کیا جا رہا ہے۔
۱۔ امام ؑ کا سیاسی میدان میں مبارزہ یعنی مامون کا امام ؑ کوولیعہدی کی پیشکش کرنا اور امامؑ کا ولی عہدی کو قبول کرکے اپنے اھداف کو حاصل کرنا اور دشمن کو شکست دینا۔
۲۔ امامؑ کا علمی میدان میں دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانا۔

امام ؑ کا سیاسی میدان میں مبارزہ

جب مامون نے امامؑ کو مدینہ سے بلایا اور ولیعہدی کی پیشکش کی یہ ایک تاریخی موقع تھا اور ایک عظیم سیاسی حکمت عملی کا متقاضی تھا کہ جس میں کامیابی یا ناکامی دین مقدس اسلام کے مستقبل کو سنوار یا بگاڑ سکتی تھی خصوصا مکتب اہلبیتؑ کے ماننے والوں کا مستقبل اسی سے وابستہ تھا اور گہری دقت اور بصیرت کا متقاضی تھا۔
مامون کا امامؑ کو مدینہ سے بلانا اور ولیعہدی کی پیشکش کرنا کئی مقاصد اور اھداف کا حامل تھا جن کو امام ؑ نے اپنی خاص حکمت عملی کے ذریعے پورا نہ ہونے دیا اور پوری قوت سے مبارزہ کیا۔

مامون کے اھداف:

پہلا:مامون کا اولین اور مہم ترین ھدف شیعوں کی انقلابی اور دائمی مبارزہ و مقاومت کی روح میں تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ شیعہ تقیہ کی ڈھال میں مسلسل مقابلہ اور مقاومت کرتے آ رہے تھے ان مبارزات کی دوخصوصیات تھیں جو ناقابل بیان حد تک بساط خلافت کو لپیٹنے میں تاثیر گزار تھیں ایک مظلومیت اور دوسری تقدس و قداست۔
مامون نے معصوم ؑ کو ولیعہدی دے کران دو نوں تاثیر گزار خصوصیات کو علویان سے لینے کی کوشش کی کیونکہ اب شیعوں کا رہبر حکومتی مشینری کا ممتاز فرد اور وقت کے مطلق العنان بادشاہ کا ولیعھد اور امور حکومت میں با اختیار ہے پس مظلوم ہیں اور نہ ہی مقدس۔
دوسرا:مامون کا ھدف امامؑ کی طرف سے حکومت کو لاحق خطرے سے نجات حاصل کرناتھا۔مامون اپنی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ امامؑ کو محسوس کر رہا تھا اور خیال کر رہا تھا کہ امامؑ کے ماننے والوں کی طرف سے ہونے والا قیام اس کی حکومت کی چولھیں ہلا سکتا ہےاس خطرے کا حل اس نے یہ سوچا کہ امامؑ کو اپنے پاس بلا لیا جائے اور انہیں ولی عھد اور موجودہ حکومت میں ظاہرا شریک بنا کر حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات سے باز رکھا جائے۔
تیسرا: مامون کا ہدف امامؑ کی شخصیت کو مسخ کرنا تھا اور ان کی اہمیت اور فضیلت کو کم کرنا تھا
چوتھا:شیعوں کےدعوی کہ اموی اور عباسی خلافت غاصب ہے کو غلط ثابت کرنا اور خلافت کو مشروعیت بخشنا تھا۔
پانچواں: مامون امامؑ جو مقاومت کا مرکز تھے ،کی تمام سرگرمیوں اور امام ؑ کے علاوہ جتنے بڑے بڑے علوی سرداراور جنگجو تھے کو زیر نظر رکھنا چاہتا تھا۔
چھٹا: مامون ،امامؑ جو لوگوں کی امیدوں کا مرکز مشکلات اور مصائب میں عوام کی پناہگاہ تھے اور لوگ انہیں اپنے میں سے سمجھتے تھے ، سے یہ عوامی رنگ چھیننا چاہتا تھا اور پھر آھستہ آھستہ لوگوں کے دلوں میں موجود محبت کو محو کردینا چاہتا تھا ۔
ساتواں:مامون کا ساتواں ھدف یہ تھا کہ امام کو ولیعہدی دینے کی بدولت اس کی شان ومنزلت اور مقبولیت میں اضافہ ہو گا کیونکہ یہ ایک طبیعی بات تھی کہ پوری دنیا اسکی تعریف کرے گی کہ اس نے اولاد پیامبرﷺ ، مقدس اور پاکیزہ شخصیت کو اپنا ولیعھد بنایا ہے۔اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس امتیاز سے محروم کیا ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی دین دار لوگ دنیا داروں کے قریب ہوتے ہیں دین داروں کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے اور دنیا طلب افراد کی عزت میں اضافہ۔
آٹھواں:مامون یہ سوچ رھا تھا کہ امام ؑ اگر ولیعہدی قبول کرلیں توحکومت کے ہر غلط کام کے لیے ڈھال بن جائیں گے کیونکہ امامؑ کی مقدس اور علمی شخصیت سب کے لیے عیاں ہے۔اگر امامؑ حکومتی غلطیوں کے لیے ڈھال بن جائیں تو کسی مخالف میں جرات نہیں کہ مشکل پیدا کرے کیوں کہ امام ؑ وہ واحد ڈھال تھے جو حکومتی برائیوں اور خطاؤں کو لوگوں کی نظروں سے چھپا سکتے تھے۔
امام رضاؑنے تدبیر او رحکمت عملی کے ذریعے دشمن کی ان تمام سازشون کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
۱:جس وقت امامؑ کو مدینہ سے خراسان کی طرف دعوت دی گئی تو امام ؑ نے مدینہ کی فضا کو غم و غصے سے بھر دیا اور مدینہ کو عزادار اور سوگوار بنادیا اس طرح کہ ہر ایک کو یقین ہو گیا کہ مامون نے امامؑ کو برے ارادہ سے بلایا ہے ۔امام ؑ نے اپنی پیش بینی کو مختلف طریقوں سے لوگوں تک پہنچایا۔رسول اکرمﷺ کی قبر سے وداع کے وقت دعا اور گریہ سے سب پر یہ روشن کیا کہ یہ سفر موت کا سفر ہے۔
مامون کی سازش کے مطابق جن لوگوں کو اس سے خوش ہونا چاہیے تھا اور امام ؑ سے بدبین ۔ امامؑ نے اس سفر کے ابتدائی لحظات میں ہی ان کے دل مامون کے خلاف کینہ اور دشمنی سے بھر دیئے۔
۲۔امامؑ نے بجائے مسلح جدوجہد کے علمی نظری اور فکری حوالے سے لوگوں کو آمادہ کرنے اور دشمن کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی جو کہ بروقت اور مؤثر ثابت ہوئی اور دشمن کا ہدف نہ صرف پورا نہ ہوا بلکہ امامؑ کا خراسان میں موجود ہونا امامؑ کے ہدف کے حصول میں معاون ثابت ہوا۔ اور دشمن کا ھدف خاک میں مل گیا۔
امام ؑ نے مدینہ سے خارج ہوتے وقت امام جوادؑ کو اپنا وصی قرار دیا اور اس عمل سے ماضی کی جدوجہد کو محفوظ کر لیا اورمستقبل میں امامؑ کو اپنے ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک نیا موقع مل رہا تھا، جس سے امامؑ نے بھر پور استفادہ کیا اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے امت کی فکری اور نظری تربیت اور دشمن کے چہرے کو بے نقاب کرنے کی ٹھان لی جس میں امامؑ کامیاب ہوئے۔ اور ماضی کی جدوجہد کے تسلسل سے بھی دشمن کو غافل کردیا کیوں کہ دشمن کی ساری توجہ امامؑ پر مرکوز ہوگئی اور امام جوادؑ کو کام کرنے کا موقع مل گیا۔ وکلاء کامؤثر نظام مضبوط ہو گیا اور امام جوادؑ کی سرپرستی میں مکتب اہل بیتؑ شمالی افریقہ تک پہنچ گیا۔
دوسری طرف مامون سے کچھ ایسے افعال سر زد ہوئے جو امامؑ کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے لیے معاون اور دشمن کی سازشوں کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئے ان کے پیچھے عامل بھی امامؑ کی موقع کی مناسبت سے کارآمد ،موزوں اور بروقت حکمت عملی کا اختیار کرنا تھا۔
جیسے خود مامون کا تمام اسلامی ممالک سے سربراہان کو بلا کر امامؑ کا تعارف کروانا اور بیعت کے لیے کہنا ،مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ مناظرہ کی محافل کا انعقاد کرنا،نماز عید کی ذمہ داری امامؑ کو سونپنا ،نماز استسقا ءکے لیے امامؑ کی خدمت میں آنا اور موقع فراہم کرنا وغیرہ۔
۳۔طاغوت کا خطرناک ترین حربہ حق کے علمبرداروں کی شخصیت کشی کرناہے ۔ جو کہ قتل سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ شخص کے قتل سے ایک شخص کا خلا پیداہوتاہے جبکہ شخصیت کے قتل سے مکتب ونظریات و افکار کو زک پہنچتی ہے ۔
تحریف شدہ تورات وانجیل کی ورق گردانی کی جائے تو باطل کی کم ظرفی اور بھیانک سازش کا پول کھلتا ہے کہ انبیاء ،معصومین ؑاور الہی نمائندگان کو انتہائی عجیب صفات سے یاد کیا گیا ہے ۔ نقل کفر کفر نباشد۔اصحاح اور بائبل کتاب پیدائش کے اٹھائیسویں باب میں نعوذ باللہ ایک نبیؑ کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت کا ذکر کیاگیاہے ۔ (ارتوجیمز معالم الکنیست ص۴۵۲طبع استنبول ۱۹۸۲ء)( الخوئی ، البیان فی تفسیر القرآن ، ص۵۰، ۳۱طبع ، دارالثقلین ، قم ۱۴۲۶ھ)۔اس کے علاوہ تمام انبیاء پر مختلف قسم کی تہمتوں کی بھرمار باطل کا وطیرہ رہا ہے ۔ کبھی ساحر کہاگیا اور کبھی مجنون کبھی جاہ پرست ، کبھی ہوس پرست جیسی صفات سے متہم کیاگیا۔
مولائے متقیانؑ کے خلاف پراپیگنڈہ مشینری اتنی تیز تھی کہ جب شام میں علی ؑ کی شہادت کی خبر پہنچی تو لوگ متعجب تھے کہ کیا علیؑ بھی مسجد میں نماز کے لئے جایا کرتے تھے ۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک منبر پر مولائے متقیان علی بن ابی طالب ؑ پر سب وشتم کا سلسلہ جاری رہا۔
مامون نےبھی کبھی مناظروں کا انعقاد کروایا تا کہ امامؑ کی علمی مرجعیت کو نقصان پہنچایا جائے، کبھی ولیعہد بنا کر امامؑ کی شخصیت کو جاہ طلب اور اقتدار خواہ کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی اوراس طرح کے مختلف حربے استعمال کیے لیکن دشمن کا امام ؑ کی حقیقت کو نہ پہچاننے اورامامؑ کی مؤثر اور بروقت تدابیر کے سامنے سب سازشیں ناکام ہوگئیں۔ مدینہ مکہ اور دوسرے اہم اسلامی شہروں میں حضرتؑ پر دنیا کی محبت وحرص کی تہمت نہیں لگائی گئی بلکہ آپ کے ظاہری و حکومتی جاہ و جلال پرآپ کا معنوی مقام ومرتبہ ہمیشہ حاوی رہا۔اور لوگوں کی زبانیں سالوں بعد آپ کے مظلوم آباؤ اجدادؑ کی شان میں کھل کر حقائق بیان کرنے لگیں ۔
۴۔ جس وقت مرو میں امامؑ کو ولیعہد ی کی پیشکش کی گئی ۔حضرت نے سختی سے انکار کر دیا اور جب تک مامون نے صریحا قتل کی دھمکی نہیں دی امام ؑ نے قبول نہیں کی ۔یہ بات ہر جگہ عام ہوگئی کہ امام ؑ نے مامون کے اصرار کے باوجود ولیعہدی اور اس سے پہلے خلافت کو ٹھکرا دیا ،یہاں تک کہ فضل بن سھل نے حکومتی کارندوں اور ملازمین کے بیچ میں کہا کہ میں نے خلافت کوآج تک اتنا ذلیل ہوتے نہیں دیکھا ،امیرالمؤمنین خلافت کی پیشکش کر رہے ہیں اور علی بن موسیؑ اسے ٹھکرا رہے ہیں۔
۵ ۔امامؑ نے فقط اس شرط پر ولیعہدی قبول کی تھی کہ کسی حکومتی کام جنگ ،صلح ،نصب وعزل وغیرہ میں مداخلت نہیں کریں گے۔مامون کا خیال تھا کہ ابتدا میں یہ شرط قابل قبول ہے بعد میں تدریجا امامؑ کو حکومتی کام میں ملوث کرلیں گے اس شرط کو قبول کر نے کی بدولت اس کے بہت سارے عزائم خاک میں مل گئے ۔
۶۔ امامؑ نے ولیعہدی کو قبول کرکے وہ کام کیا جس کی تاریخ خلافت میں، چالیس ھجری میں خلافت اہل بیت (امیرالمومنینؑ ) کے خاتمہ کے بعد،مثال نہیں ملتی ،شیعہ عقیدہ امامت کو جھان اسلام کی سطح پربیان کرنا ، امامت کو تقیہ کے گہرے پردوں سے نکال کر عالم اسلام تک پہنچانا اور خلافت کا وسیع و عریض پلیٹ فارم آپ کے اختیار میں تھا ۔امامؑ نے اپنا وہ کلام جو ۱۵۰ سال سے دبا رھا، ببانگ دہل ہر فرد تک پہنچایا اور اس زمانے کے خصوصی وسائل جو فقط خلیفہ اور اس کے نزدیکیوں کےپاس ہوتے تھے کواپنا پیغام پہنچانے کے لیے پہلی بار استعمال کیا۔
۷۔مامون امامؑ کو لوگوں سے جدا رکھنا چاھتا تھا تاکہ یہ جدائی امام ؑ کے لوگوں سے معنوی وعاطفی تعلق کے خاتمہ کا باعث بنے امامؑ کو جہاں بھی موقع ملتا لوگوں سے ارتباط قائم کرتے اس کے باوجود کہ مامون نے جان بوجھ کر امامؑ کو خراسان لانے کےلیے اس راستے کا انتخاب کیا جو ان شہروں سے نہ گرزتا ہو جہاں اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے رہتے تھے جیسے کوفہ ،قم وغیرہ۔امام ؑ نے اس راستے میں بھی جہاں موقع ملالوگوں سے ایک نیا رابطہ اور تعلق بنایا اہواز میں امامت کی کرامات دکھائیں، بصرہ میں لوگوں کواپنا گرویدہ بنالیا ۔نیشا پورمیں حدیث سلسسلہ الذہب کو ہمیشہ کےلیے یادگار کے طور پر چھوڑ گئے، جہاں فرصت ملی لوگوں کو ارشاد و ھدایت کی مرو جو کہ آپ کی اصلی رھائشگاہ اور دارالخلافہ تھا جب بھی آپ موقع و فرصت دیکھتے سرکاری حصار کو لوگوں کے لیے ہٹا دیتے۔
۸۔ علم مخالفت بلند کرنے والے شیعوں نے نہ صرف سکوت اختیار نہیں کیا اور حکومت کے ساتھ معاملہ نہیں کیا بلکہ بہت سے قرآئن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ نئی صورتحال ان کی حوصلہ افزائی اورمزید ثابت قدمی کا باعث بنی اور جنگجو اور شورش کرنے والے افراد جو اپنی زندگیاں سخت پہاڑوں اور دوردراز بستیوں میں گزارنے پر مجبور تھے امامؑ کی حمایت کی وجہ سے حکومتی کارندوں کے نزدیک مورد احترام بن گے تھے۔

۲۔علمی میدان میں مبارزہ:

دوسری صدی میں جب تدریجی طور پر کاغذ کا استعمال شروع ہوا تو علوم کی تاسیس اور تقسیم بندی بھی اسی دور میں ہوئی اور عالم اسلام میں مرجعیت علمی کا مسئلہ پیدا ہوا۔اس زمانہ میں مرجعیت علمی امامین صادقینؑؑ کے پاس تھی جب بنی عباس کی حکومت آئی تو دیکھا کہ ظاہری طور پر خلیفہ وہ ہیں لیکن حقیقت میں خلیفہ تو امام صادقؑ ہیں ۔بنی عباس کی خواہش تھی کہ مرجعیت علمی ان کے پاس نہ رہے ۔اسی طرح امام رضاؑ کا دور بھی اہل بیتؑ اور خلافت عباسی کے درمیان کشمکش کا زمانہ ہے ۔بنو عباس اپنے سیاسی مقاصد کی وجہ سے چاہتے تھے کہ اس خاندان سے مرجعیت علمی چھین لی جائے۔
تاریخ میں امام رضاؑ کا زمانہ عصر طلائی کے نام سے مشہور ہے اسی میں یونان ، مصر ،ہندوستان،ایران اور روم تک جتنی بھی علمی کتب تھیں ان کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ مامون نے یونانی کتب کا ترجمہ کروانے میں بڑی کوشش کی اور بے بہا پیسہ خرچ کیا ۔جیسا کہ مشہور ہے کہ مامون ترجمہ شدہ کتاب کے وزن کے برابر سونا دیتا تھا ۔
مامون جب امام رضاؑ کو مرو لے کر آیا تومختلف دانشوروں کے ساتھ متعدد علمی محافل تشکیل دیں ۔ علمی محافل تشکیل دینے میں مامون کا ھدف علم دوستی کا تظاہر تھا ۔اصل میں وہ معتزلہ کے ساتھ تھا اور چاہتا تھا کہ اہل حدیث کا مقابلہ کرے ۔وہ امامؑ کو ان ابحاث میں الجھا کرعوام کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ یہ علم لدنی کے حامل نہیں ۔مامون امامؑ کے مقابلہ میں ہر فرقہ کے بڑی سطح کے علماء کو لاتا تھا تاکہ ان کے ذریعے امامؑ کی علمی شخصیت کو مجروح کرے ۔اس کا کینہ امامؑ کی علمی اور اجتماعی قدرومنزلت سے تھا ۔لیکن جو بھی امامؑ کے ساتھ علمی مناظرہ اور بحث کرنے آتا مجبور ہو کر ان کے فضل کا اقرار کرتا۔
امام رضاؑ نے مختلف افکار اور منحرف عقائد کے سامنے سد بننے کے لیے مجموعی طور پر چار روشیں اپنائیں۔
الف ۔شاگردوں کی تربیت :
مکتب اہل بیتؑ کی ترویج و بقاء کی خاطرسارے آئمہؑ کی یہ روش رہی کہ انہوں نے اصحاب اور فاضل شاگردوں کی تربیت کی تاکہ ان کے ذریعے اسلام کے صحیح عقائد کو منتشر کر سکیں اور منحرف عقائد کا مقابلہ کرسکیں۔
امام رضا ؑکے اہم ترین اصحاب اور شاگردان میں سے احمد بن محمد ،محمد بن فضل ازدی،حسن بن علی،محمد بن سنان،حماد بن عثمان،حسن بن سعید اہوازی،عبداللہ بن مبارک کا نام لیا جا سکتا ہے۔
ب۔خط وکتابت:
فکری انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک روش خط وکتابت اور پیغامات تھے۔امام ؑ ان خطوط میں متعین شدہ افراد کے وظائف و ذمہ داریاں معین فرماتے تھے۔امام ؑ کے یہ فقہی ،سیاسی اور عقائدی نوشتہ جات ان کے شاگردوں کے توسط سے لکھے جا چکے ہیں۔
ج:سوالات اور شبہات کے جوابات:
اسلام کے حقائق بیان کرنے کا ایک اہم راستہ سوالات اوران کے جوابات دینا ہے۔ امامؑ کبھی بھی کسی سوالی کو مطمئن کیے بغیر نہیں لوٹاتے تھے یہاں تک کہ امام ؑ کو جب مدینہ سے مرو لایا گیا تو راستہ پانچ ھزار کلومٹر لمبا تھا اس راستہ میں بھی معارف الٰھی کے تشنہ افرادنے استفادہ کیا۔جب لوگ امامؑ سے ملتے تھے تو سوالات کا جواب لیے بغیر جدا نہیں ہوتے تھے۔اور امام ؑنے بھی اس موقع سے بھر پور استفادہ کیا اور لوگوں کو جواب دے کر معارف اسلامی کی تبلیغ اور فکری انحرافات سے مبارزہ کیا۔
د:مناظرات:
امامؑ کے دور میں کلامی ابحاث اپنے عروج پر تھیں جس میں دوگروہوں (معتزلہ)اور (اہل حدیث) کے درمیان کشمکش جاری تھی۔ ایک عقل کو ترجیح دیتا تھا اور دوسرا نقل کو ۔ مامون نے اس بحث میں امامؑ کو داخل کرنے کی کوشش کی اور باقی بھی مختلف مذاہب اور فرقوں کے ساتھ مناظروں کا بندو بست کیا تا کہ امامؑ کی علمی مرجعیت کوزک پہنچائی جا سکے ۔لیکن جو بھی مناظرہ کرنے آتا وہ امامؑ کے علم و فضل کا قائل ہو جاتا حتیٰ کئی بار مامون نے اظہار کیا کہ "ھذا اعلم ھاشمی”۔ امامؑ جس دین اور مکتب کے پیرو کے ساتھ بحث کرتے اسی کے مذہب اورمصادر سے جواب دیتے۔
جب مامون نے مسیحیوں کے عالم (جاثلیق)سے کہا کہ امامؑ سے مناظرہ کرے تو اس نے کہا کہ میں ان کے ساتھ کیسے بحث کروں وہ ایسی کتاب سے استدلال کرتے ہیں جسے میں قبول نہیں کرتا اور ایک ایسے پیغمبر کا قول لاتے ہیں کہ جس پر میں ایمان نہیں رکھتا ۔حضرت نے فرمایا ائے مسیحی اگر میں تیرے لیے انجیل سے دلیل لاوں تو کیا قبول کرلوگے ؟جاثلیق نے کہا ،قبول کروں گا ۔درحقیقت امامؑ نے قابل قبول مشترکہ نکات پر مناظرہ کیا ۔اس کے بعد جاثلیق نے کہا مسیح کی قسم ،میرا خیال نہیں تھا کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی آپ جیسا عالم موجود ہو۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ امامؑ کے مناظرات سے مکتب تشیع کو تشخص حاصل ہوا۔مخالفین شکست دینے آتے تھے لیکن امام ؑکی کامیابی نے اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا اورثابت کیا کہ کامیاب اور حقیقت پر مبنی مذہب مکتب تشیع ہے۔اسی طرح ایک عمران نامی صابی متکلم نے دعوی کیا کہ آج تک اسے کوئی مناظرہ میں شکست نہیں دے سکا لیکن وہ امام رضاؑ کے ساتھ مناظرہ کے بعد مسلمان ہوگیا۔
امامؑ نے مختلف ادیان اور مذاہب کے لوگوں کو مناظرہ میں شکست فاش دی اور امامؑ کے علم وفضل کی شہرت ہر طرف پھیل گئی ۔مامون ہر متکلم اور مناظر کو امام ؑ کے مقابلے میں لایا کہ شاید کوئی ایک آدمی امام ؑ کو جواب دے سکے لیکن مناظرہ کرنے سے امامؑ کی علمی قدرت آشکار ترہوتی گئی اور مامون اس طریقہ سے بھی ناامید ہوگیا۔
مختصر یہ کہ مامون جس جال میں امامؑ کو پھنسا نا چاہ رہا تھا خود اس میں روز بروز پھنستا جا رہاتھا یہاں تک کہ مامون نے شکست کا احساس کیا اور اپنی اس واضح غلطی کا جبران کرنے کے لیے اسی وسیلہ کا سہارا لیا جس کا پہلے ظالم اور فاسق و فاجر حکمران لیتے رہے تھے یعنی "قتل”۔آخری راہ حل اس کے پاس یہی تھا کہ اپنے ہاتھ سے امام ؑکو زہر دے دے اور اس نے یہی کیا ۔
گو ولي عہدي قبول کرنا تاريخ ائمہؑ کے دھارے ميں ايک منفرد واقعہ ہے جو مزاج امامت سے نا آشنا افراد ميں شکوک پيدا کرسکتا ہے ليکن درحقيقت يہ امامؑ کي سياسي بصيرت کي عکاسي کرتا ہے کہ ايک مشکل مرحلہ کو کس طرح ايک اعليٰ وارفع مقصد کے حصول کا ذريعہ بنايا جاسکتا ہے- دوران ولي عہدي کے واقعات امامؑ کے مناظروں اور علمي فيوض سے اس حقيقت کي تصديق ہوتي ہے- امام رضاؑ نے اپنی تدبیر و حکمت عملی سے يہ ثابت کرديا کہ خداوند عالم کي خلافت اور نمائندگي کے حقدار صرف ائمہؑ ہيں اور زمين پر خدا کي حجت اور اس کے نمائندہ ہيں –
منابع
۱۔ الائمة الاثنی عشر، هاشم معروف حسنی، ج 2، ص 359.
۲۔ اعلام الوری، طبرسی، ص182
۳۔عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، ج 1، ص 14 ـ 13.
۴۔ الامام الرضا(ع)، علامه سید عبدالرزاق مقرّم، ص 24.
۵۔ الارشاد شیخ مفید، ج 2، ص 243
۶۔ منتهی‏الآمال، ج 2، ص 460.
۷۔علل الشرایع، شیخ صدوق، باب 172، ص 90.
۸۔تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 405 ـ 402.
۹۔تاریخ الخلفاء، سیوطی، ص 276

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

nineteen + 9 =