تحریر: محمد ثقلین واحدی
چار جون اس شخصیت کی برسی کا دن جن کے نام کے بغیر ایران کے اسلامی انقلاب کی کوئی پہچان نہیں ہے جی ہاں امام خمینی نے ایران کی اڑھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ کیا صرف یہی نہیں بلکہ اسکے بعد انہوں نے مشرق و مغرب کی سپرپاورز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اوران کا لایا ہوا انقلاب آج بھی عالمی مستکبرین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے۔
امام خمینی کی انقلابی فکر نے جہاں ایران کو نجات بخشی وہیں پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں کے لئے نسیم بہار ثابت ہوئی، انقلاب اسلامی سے پہلے ایران خطے میں اسرائیل کا رفیق کار تھا لیکن امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران نے اعلان کر دیا کہ ہم ظالم، غاصب اور ناجائز اسرائیل کو قبول نہیں کرتے۔
افکار امام خمینی کی بنیاد اس بات پر استوار تھی کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، کئی ہزار سالہ سامراجی اور صیہونی محنت کے نتیجہ میں یہ نظریہ قائم کیا گیا تھا کہ دین کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اگر دین سیاست کے کاموں میں مداخلت کرے گا تو دین نجس ہو جائے گا اور سیاست جیسے گناہ سے آلودہ ہو جائے گا لہذا دینی علما کو اپنی مساجد اور مدارس میں اللہ اللہ کرنا چاہیئے اور سیاسی مسائل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔
لیکن عین اسی زمانے میں خمینی کے افکار کا سورج طلوع ہوا اور امام نے ان تمام باطل نظریوں کے مقابلے میں “دین عین سیاست و سیاست عین دیانت” کا نظریہ پیش کردیا ۔ اگرچہ امام کے دین و سیاست کے اتحاد کے نظریہ کو بہت شہرت ملی لیکن درحقیقت اس کے پیچھے ایک اور نظریہ کار فرما تھا اور وہ یہ تھا کہ گذشتہ ادوار میں علماء اس بات کے قائل تھے کہ سیاسی مسائل میں مداخلت چونکہ امربالمعروف و نہی از منکر کے باب سے ہے اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے بنیادی شرط قدرت یعنی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔
لہذا جب تک طاقت موجود نہ ہو اس وقت تک امر بالمعروف و نہی از منکر ہم پر واجب نہیں لہذا سیاست میں دخالت دین اور علمائے دین کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اس کے مقابلے میں بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کا نظریہ ان سے مختلف تھا ، ان کے مطابق اگرچہ طاقت امربالمعروف کیلئے بنیادی شرط ہے لیکن اس طاقت و قوت کا حصول بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
بانی ِ انقلابِ اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی امام خمینی رح کی سیاسی علنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز اکتوبر 1962 میں ہوا جب جب شاہ کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا جس میں امیدواران اور رائے دہندگان میں غیر مسلموں کی شمولیت اور قرآن کریم کی بجائے دوسری آسمانی کتب پر حلف اٹھانے جیسے امور شامل تھے امام خمینی کو جیسے ہی اسکی اطلاع ملی وہ شاہ کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جسکا اثر یہ ہوا کہ بل پہ عملدرآمد روک دیا گیا۔
انقلاب کے لیئے اگلا پیش خیمہ 1963 میں یوم عاشور کے موقع پر امام کا وہ خطاب ثابت ہوا جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا امام کو گرفتار کر لیا گیا لوگوں میں اشتعال مزید بڑھا تو حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیالیکن عوام اپنے رہبر کے بغیر رہنے پہ آمادہ نہ تھے عوامی دباو پر امام کو رہا کر دیا گیا لیکن اب دیر ہو چکی تھی امام کی انقلابی فکر شاہ کے ظلم سہتی ایرانی عوام کو اپنا گرویدہ بنا چکی تھی ایسی صورتحال میں 1964 میں ایک اور بل منظور کیا گیا جس میں ایران کے اندر امریکی فورسز کی تعیناتی کے لیئے تمام رکاوٹوں کا خاتمہ تھا امام خمینی نے ایک طاغوت شکن خطاب کے ذریعے اس بل کی زبردست مخالفت کی شاہ کی حکومت امام کی اس مزاحمت سے سخت تذبذب کا شکارتھی امام کی گرفتاری کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا شاہ کے پاس اب ایک ہی رستہ بچا تھا سو اس نے وہ آزما دیا 4 اکتوبر 1964 کو امام کو جلا وطن کر دیا گیا جلا وطنی کے دوران امام خمینی ترکی، نجف اشرف اور پیرس میں قیام پذیر رہے لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے اس دوران ان کے فرزند کو شہید کر دیا گیا لیکن امام خمینی کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش لائے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے ۔
بالآخر 14 سال کی جلا وطنی کے بعد یکم فروری 1979 کو امام تہران کے مہر آباد پہ اترے تو مناظر دیدنی تھے عوام اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے بے تاب تھے بختیار کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اپنے رہبر کی آواز پہ لبیک کہتی ایران کی انقلابی عوام نے شاہی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی 11 فروری کا سورج انقلابِ اسلامی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔
بالآخر یہ مردِ حق جو 21 ستمبر1902کو تہران کے مشرق سے طلوع ہوا تھا باطل کے باطل نظریات کو خاک میں ملا کر 4 جون 1989 کی رات اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔