تحریر: کوثر عباس قمی الحیدری
آنسو کیا ہیں اور کیوں نکلتے ہیں؟
محققین کہتے ہیں، آنسو انسانی جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں یعنی آنسو، کچھ کہے بغیر اپنے جذبات کے اظہار کا نام ہے اور یہ جذبات کبھی مثبت ہوتے ہیں کبھی منفی ،آنسو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خدا طرف سے ایک خاص نعمت کا نام ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے اگر روتا نہیں تو ماں باپ پریشان ہو جاتے ہیں کہیں مردہ تو نہیں،گویا رونا زندگی کی علامت ہے ،بہرحال آنسو یا غم کے ترجمان ہوتے ہیں یا خوشی کے آنسو صرف آنکھ سے بہنے والا پانی ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ اور کبھی خوشی کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بظاہر پانی کے ان قطروں کو انتہائی مقدس بنا دیتی ہے۔ شاعری میں آنسو کا سیاق اپنی اکثر صورتوں میں عشق اور اس میں بھوگے جانے والے دکھ سےوا بستہ ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
اتنا سکون تو غم پنہاں میں آ گیا
آغوش دل سے دامن مڑگاں میں آ گیا
دل اشک بن کے دیدہ گریاں میں آ گیا
خورشید جیسے روزن زنداں میں آ گیا
دنیاوی امور پہ رونا اور آنسو بہانا خدا ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں ،دنیاوی امور پہ غم کرنا یا آنسو بہانا منفی پہلو رکھتا ہے سورة حدید کی آیت نمبر 23 میں ارشاد ہوا۔
ترجمہ: تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
مگر مثبت جذبے کے ساتھ رونے کو خدا قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ملاحظہ فرمائیے سورةمائدہ کی آیت نمبر 83
ترجمہ:اور جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والے کلام کو سنتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ معرفت حق کی بدولت ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں،کیونکہ کسی بات کا اظہار جب لفظوں سے نہ ہو سکے تو آنسو موثر ترین ذریعہ ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ جس تاثر کا اظہارآنسوﺅں سے ہوتا ہے، وہ لفظوں سے نہیں ہوتا۔ جنہوں نے حق کی شناخت کر لی ہو وہ گریہ ضرور کرتے ہیں،اسی طرح سورةتوبہ کی آیت نمبر 92 میں ارشاد ہوا۔
ترجمہ:اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔
زیارت امام حسین علیہ السلام میں اس مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یالیتنا کنا معکم ونفوز فوزا”عظیما اس لئے کہ آپ نے کربلا کے میدان میں فتح و شکست اور عزت و شرافت کے جو معیار مقرر کئے ہیں اور اسکے جو حقیقی مظاہر سامنے لائے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یزید اور یزیدیت کو ایسی شکست فاش دی کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی کوئی اس ظاہری فاتح لشکر کے ساتھ شامل ہونے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب آج بھی ہر باضمیر انسان “یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزاً عظیماً” کا نعرہ بلند کر رہا ہے اور اس ظاہری شکست خوردہ لشکر میں شامل ہو کر عظیم کامیابی پر فائز ہونے کیلئے بے چین ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے انسانی اقدار کی حفاظت کی جنگ لڑی ہو، آپ نے انسانی حیثیت و مقام انسانی کرامت و شرافت اور انسانیت کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے کربلا کا معرکہ لڑا۔ آپ نے مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام کر کے انسانیت کو ایک ایسے راستے کی نشاندھی کر دی جس میں شکست کا تصور ہی نہیں ہے۔
شب عاشور کے واقعات اور ان جانثار ساتھیوں کا تجدید عہد ایک ایسی انمٹ داستان اور حقیقت ہے کہ اہل عشق و معرفت اصحاب امام حسین علیہ السلام کے جملوں کو اپنے لئے راہ ہدایت قرار دیتے رہیں گے کہ اے کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے تو آپ کے مقصد میں ناصر و مددگار ہوتے۔ہمارے آنسو اور ہمارا رونا اسی حسرت کے سبب ہے اسی طرح سورة یوسف کی آیت نمبر 84 میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق فرمایا۔
ترجمہ:اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے غم فراق میں روتے روتے آنکھیں نابینا کر دیں لیکن شدت غم کے باوجود اللہ کے اس فیصلے کو ناپسند نہیں کیا۔ راضی برضا رہے۔ یہاں سے ایک نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ اظہار حزن اور گریہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہے اور بقول بعض اہل قلم یہ اشک فشانی کمالات نبوت کے ذرا بھی منافی نہیں ہے بلکہ اور زیادہ شفقت اور رقت قلب کی علامت ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام تو خیر جواں تھے مگر تفسیر دریا آبادی میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ ہمارے حضورانورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پرآنسوو¿ں کے ساتھ روئے ہیں جو ابھی شیر خوار ہی تھے۔ لہٰذا شدت غم سے اظہار حزن اور گریہ کرنا ایک طبعی امر ہے، صبر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ راہ خدا میں زخم کھا کر شدت درد سے کراہنا صبر کے منافی نہیں بلکہ طبیعی امر ہے۔ صبر کے منافی یہ ہے کہ اس فیصلے کو پسند نہ کیا جائے اور جزع فزع اس لیے ہو کہ یہ فیصلہ کیوں رونما ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
ترجمہ: آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہوتا ہے لیکن ہم اپنے رب کی مرضی کے خلاف لب نہیں کھولتے، ابراہیم تیری جدائی پر غمگین ہوں۔
خوف خدا میں بالاخص مصلاءعبادت پہ رونے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ: قیامت کے دن دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ جو خوف خدا میں روتی ہو دوسرے وہ جو مسلمانوں کی حفاظت کے لیے جب لوگ سورہے ہوں تو وہ جاگتی ہو ں،
خدا کو دو قطرے بہت پسند ہیں ایک خوف خدا میں آنکھوں سے نکلا ہوا قطرہ اشک اور دوسرے خدا کی راہ میں نکلا ہوا قطرہ خون ،اسی طرح خداوند متعال نے اپنی پاک کتاب میں اپنے خاص بندوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا،
ترجمہ:جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔
اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں رونا بھی افضل ترین رونا اور عبادت میں شمار ہوا ہے (جس پہ اجر کا وعدہ ہے) اس لیے کہ ایک تو خود نبی کریم حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت پر اس وقت روئے جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو امام حسین کے کربلا میں قتل ہو جانے کی خبر دی حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحی حین میں لکھتے ہیں کہ
ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔
بہت جلد فاطمہ وعلی علیہما السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔
ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شہید کر دے گی پھر اس نے مجھے شہادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔
ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں،
ترجمہ:عبد اللہ بن زمعہ کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شہید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شہید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔
امام حسن و حسین علیہما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ کیا اور حسین علیہ السلام کو سینے سے لگا لیا۔
پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شہید ہو گیا ہے۔ام سلمیٰ نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔
اسی طرح ?یثمی ایک دوسری روایت نقل کرتا ہے کہ:
ترجمہ: ابو امامہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا۔ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسین علیہ السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔
جبرائیل نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔
جبرائیل نے زمین کربلاءکی خاک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شہید کیا جائے گا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غم کی حالت میں حسین علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔
ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گئے تھے
۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شہید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو،
ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرت آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا:
میں ابھی حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا۔
مذکورہ روایت سے ام سلمہ زوجہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مصیبت امام حسین کویاد کر کے رونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسول ہے۔
علامہ باقر مجلسی بحار الانوار میں روایت نقل کی ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
یا فاطمة! کل عین باکیة یوم القیامة الا عین بکت علی مصاب الحسین فانہ ا ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة.
حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ جان! امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کرنے والی آنکھ کے سوا قیامت کے دن ہر آنکھ گریہ کرے گی۔ امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کرنے والا قیامت کے دن مسکرا رہا ہوگا اور اسے بہشتی نعمتوں کی خوشخبری سنائی جائے گی۔
بحارالانوار، ج ۴۴، ص ۲۹۳
امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں
من ذکرنا و ذکرنا فخرج من عینہ دمع مثل جناح بعوضة ،غفر اللہ لہ ذنوبہ ولوکانت مثل زب،
جو شخص ہمیں یاد کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آئے توخداوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ایک اور حدیث میںابان بن تغلب امام صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا
نفس المہموم لظلمنا تسبیح وھمّہ لنا عبادة وکتمان سرّنا جھاد فی سبیل اللہ ثمّ قال ابو عبد اللہ علیہ السّلام : یجب ا?ن ی±کتب ھذا الحدیث بالذّھب
ہمارے ظلم پر غمزدہ کی سانس لینا تسبیح ہے اور ہماری خاطر غمگین ہونا عبادت ہے اور ہمارے راز کو مخفی رکھنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اور پھر فرمایا : ضروری ہے کہ اس حدیث کو سونے سے لکھا جائے۔
اس حوالے سے امام رضا علیہ السّلام سے مروی ہیں،
ترجمہ:جو شخص ہم پرآنے والے مصائب کو یاد کر کے ان پر روئے یا دوسروں کو رلائے تو روز قیامت اس کا درجہ ہمارے برابر ہوگا اور جو شخص ہماری مصیبت کو بیان کر کے روئے یا رلائے تو وہ اس دن اس کی آنکھ گریہ نہ کرے گی جس دن سب آنکھیں گریہ کناں ہوں گی۔اور جو شخص ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں ہمارے امر کو زندہ کیا جا رہا ہو تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن سب دل مردہ ہوں گے۔
سعد ازدی نے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق علیہ السّلام نے فضیل سے فرمایا۔
ترجمہ: کیا تم مل بیٹھ کر گفتگو کرتے ہو ؟عرض کیا: ہاں،میں آپ پر قربان ہوں۔ فرمایا: بے شک میں ان مجالس کو دوست رکھتا ہوں ،پس اے فضیل ! ہمارے امر کو زندہ رکھو،خدا کی رحمت ہو اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے۔
اے فضیل ! جو شخص ہمارا ذکر کرے یا اس کے پاس ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابرآنسو نکل آئے تو خداوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
محمد بن ابی عمّارہ کوفی نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن جعفر علیہما السّلام سے سنا وہ فرما رہے تھے جو شخص ہمارے خون کے بہنے یا ہمارے حق کے غصب ہونے یا ہماری اورہمارے شیعوں میں سے کسی کی حرمت کے پامال ہونے پرایک قطرہ آنسو بہائے تو خدا وند متعال اسے اس آنسو کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں جگہ عطافرمائے گا۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا۔
امیرالمو¿منین علیہ السّلام نے حسین علیہ السّلام پر نگاہ ڈالی اور فرمایا : اے ہر مومن کی آنکھ کے آنسو۔عرض کیا : بابا جان ! میں ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہوں؟
(یعنی آپ کا نام آتے ہی مومن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں)
فرمایا : ہاں ،میرے فرزند۔حسن بن علی بن عبداللہ نے ابی عمّارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا،
جب کبھی امام صادق علیہ السّلام کے پاس امام حسین علیہ السّلام کا تذکر ہ کیا جاتا تو وہ پورا دن ان کے لبوں پر مسکراہٹ دکھائی نہ دیتی اور فرمایا کرتے تھے : حسین ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہیں۔
امام باقر علیہ السّلام نے اپنے والد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے۔
جس شخص کی آنکھ سے حسین بن علی علیہما السّلام کی شہادت پر آنسو نکل کر اس کے رخسار پر بہے تو خداوند متعال اسے اس کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں مکان عطا فرمائے گا، اور جس شخص کے رخسار پر ہمارے اوپردشمن کی طرف سے ڈھائے گئے مصائب پر آنسو جاری ہو تو خدا وند متعال اسے جنّت میں صدیقین کا مرتبہ عطاکرے گا ،اور جسے ہماری راہ میں کوئی اذیت پہنچے اور اس کے رخسار پر آنسو جاری ہو جائے تو خداوند متعال اسے رنج وغم سے محفوظ رکھے گا اور اسے روز قیامت جہنّم کے غضب سے امان میں رکھے گا۔
خداوندمتعال اپنی رحمت و شفقت سے حسین پر گریہ کرنے والوں پر درود بھیجتا ہے اور ان پر بھی درود بھیجتا ہے جو ان کے دشمنوں پر لعنت بھیجے۔آگاہ ہوجاو¿! جو لوگ حسین کے قتل پر راضی ہیں وہ ان کے قتل میں شریک ہیں۔آگاہ ہوجاو¿! انہیں شہید کرنے والے ، ان کے دشمنوںکی مدداوران کی پیروی کرنے والوں کا دین خداسے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خداوند متعال روز محشر ملائکہ مقرّبین کوحکم فرمائے گا کہ حسین کی مصیبت اور ان کی عزاداری میں بہائے جانے والے آنسوو¿ں کو جمع کرکے خازن جنّت کے پاس لے جائیں تاکہ وہ انہیں آب حیات میں مخلوط کردے جس سے اس کی خوشبو میں ہزار برابر اضافہ ہو جائے گا۔
اور ملائکہ ان کے قتل پر خوش ہونے والوں کے آنسوو¿ں کواکٹھا کرکے انہیں جہنّم کے مشروبات میں ڈال دیںگے جو خون ،پیپ اور بدبودار پانی کی صورت اختیار کرلیں گے اور اس سے جہنّم کی گرمی میں شدّت آجائے گی تاکہ آل محمّد علیہم السّلام کے دشمنوں پر عذاب کو ہزار برابر کردیا جائے
امیرالمو¿منین علی بن ابی طالب علیہ السّلام فرماتے ہیں،خدا وند متعال زمین کی طرف متوجہ ہوا تو ہماراانتخاب کیا اور ہمارے لئے شیعوں کاانتخاب کیا جو ہماری مدد ونصرت کرتے ہیں،ہماری خوشی میں خوش اور ہماری مصیبت پر غمگین ہوتے ہیں،ہماری راہ میں اپنا مال وجان قربان کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں اور ہماری ہی جانب آئیں گے۔ اور پھر فرمایا : روز قیامت ہر آنکھ گریہ کناںا ور بیدار ہوگی سوا اس آنکھ کے جسے خدا نے اپنی کرامت اور حسین و آل ؑمحمد کی بے حرمتی پررونے کی وجہ سے انتخاب کر لیا ہو۔
خداوند متعال روز محشر ہمیں حسین ابن علی اور آپ کے اصحاب و اھل بیت پر رونے والوں میں سے محشور فرمائے آمین یا رب العالمین