تحریر: عاصمہ شیرازی
فلسطین میں قتل ہوتے بچوں، عورتوں، جوانوں، بزرگوں کی تصویریں اور بچ جانے والوں کی ملول آہیں عالمی ضمیر نامی چیز پر احساس کے کچوکے لگا رہی ہیں۔ مذمت، افسوس اور تعزیت کے سب الفاظ، اظہار کے سب طریقے اور تاسف کے سب انداز اپنے معنی کھو رہے ہیں۔
المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ اپنے دامن میں ظلم کی نئی داستان رقم کیے بے بس کھڑی ہے۔ ذہن شل ہے اور زبان لڑکھڑا رہی ہے۔
ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم فلسطینی بچوں اور عورتوں کی دلخراش تصویروں اور چیخوں سے بھرے پڑے ہیں۔ معصوم لاشیں کچھ زندہ اور کچھ مُردہ، نوجوان زخمی اور آزردہ، مرنے والے سب ایک ہی رنگ اور نسل کے ہیں جن کا خون تیل کی چند بوندوں سے بھی سستا ہے۔
خون فلسطینیوں کا بہہ رہا ہے اور شرمندگی کے پسینے انسانیت کے ماتھے سے پھوٹ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اُس بچے کا کیا قصور تھا جس کی پیدائش سے قبل اُس کی موت کا سرٹیفیکٹ جاری ہوا؟
بتائیے، اُس ماں کا کیا قصور تھا جس نے آٹھ سال گود بھرنے کا انتظار کیا اور جنم دیتے ہی کوکھ اُجڑ گئی۔ ملبے کے ڈھیر سے والدین ڈھونڈتے بچے، کفن کھنگالتے اور پیاروں کو ڈھونڈتے نوجوان، بلک بلک کر روتے معصوم جبکہ موت سے بھرے ہسپتال جو اب شفا خانے نہیں بلکہ قتل گاہوں میں بدل چکے ہیں۔
دنیا فلسطینیوں کے لیے محض ایک جیل ہے اور مہذب دنیا محض ایک مذاق۔۔۔
غزہ کی 140 مربع میل کی پٹی میں 23 لاکھ لوگ بستے ہیں، آٹھ ہزار سے زائد مارے جا چکے ہیں۔ غزہ کی کُل آبادی میں 50 فیصد صرف بچے ہیں جبکہ 24 سال سے کم عمر آبادی 65 فیصد ہے۔ 50 ہزار مائیں رواں ماہ بچے پیدا کریں گی بلکہ یوں کہیے موت کے لیے زندگی کو جنم دیں گی مگر دنیا خاموش تماشائی ہے۔
خاردار بجلی کی تاروں میں محصور غزہ کے محروم اور مجبور عوام بے بسی کا نوحہ ہیں مگر اُن کی آواز اُن کے قریب ترین مسلمان ہمسائے ملک بھی سُننے کو تیار نہیں۔
فلسطین کی مقتل گاہ میں مارے جانے والے بے گُناہ مسلمانوں کے مناظر ہر روز دیکھنے والے 57 مسلمان ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا کی آبادی کا 21 فیصد ہیں۔
تیل اور گیس جیسے وسائل سے مالا مال جبکہ انسانی وسائل سے بھرپور مسلمان ممالک 41 ملکوں پر مشتمل ایک فوج بھی رکھتے ہیں جس کے سپہ سالار پاکستان کی فوج کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔
یمن جیسے غریب اسلامی ملک کے باغی گروہ کو قابو میں لانے والی عظیم اسلامی فوج اسرائیل کے سامنے ناصرف خاموش ہے بلکہ آہ بھی سوچ سمجھ کر نکال رہی ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک مذمتی قراردادوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں اور اقبال کے ’بے تیخ‘ سپاہی بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ اسلامی ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے اب تک کے ’غیر معمولی اجلاس‘ اسرائیل کو معمولی سا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکے۔
مذمتی قراردادیں اور احتجاجی مظاہرے اسرائیل کی بے رحم توپوں کے دہانے بند نہیں کر سکے۔ اربوں مسلمانوں کی اجتماعی دعائیں اسرائیل کی توپوں میں کیڑے نہیں ڈال سکیں اور ’مرگ بر اسرائیل‘ وغیرہ کے نعرے صیہونی ارادوں کو تسخیر نہیں کر سکے۔
گھروں میں بیٹھے ٹی وی سکرینوں پر غزہ کی پٹی پر ڈھائے جانے والے ستم دیکھتے ہوئے ہم سب دل ہی دل میں ظلم کی مذمت کرتے ہوئے ایمان کے آخری درجے پر تو ہیں مگر ساتھ یہ اضافی جملہ ضرور کہتے ہیں کہ آخر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟
اسرائیل کو کوستے ہوئے کم از کم مصر سے یہ مطالبہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جیل سے آزادی کا ایک راستہ یعنی اپنی بند سرحد کھول دے؟ جب ہماری جماعتیں فلسطین سے یکجہتی کے لیے الگ الگ سڑکوں پر نکلیں تو یہ مطالبہ تو دہرا سکتی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اُن سے روابط رکھنے والی ریاستیں یعنی اردن، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، سوڈان اور مراکش وغیرہ اسرائیل سے رابطے منقطع کریں؟
یہ مطالبہ تو او آئی سی عرب ریاستوں سے کر ہی سکتی ہے ناں کہ مسلم اُمّہ کے دفاع کی عظیم فوج فلسطینیوں کے لیے بھی اسلحہ نہیں تو کم از کم بیان ہی جاری کر دے۔
اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو مناسب ہے کہ الفاظ کے ہتھیار بھی پھینک دیے جائیں، مذمتوں اور قراردادوں سے سیاہ ہونے والے کاغذوں کی کشتیاں بنا لی جائیں۔ اور بد دعاؤں کے رستے کھول دیے جائیں کہ اسرائیل کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔۔۔ کیونکہ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو