تحریر: نوید مسعود ہاشمی
مسلمانوں کی صفوں میں گھسا ہوا منافقین کا گروہ تو اسرائیل کی طاقت سے ڈرا کر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ”اسرائیل” تسلیم کرو کے ایجنڈے پر لگا چکا تھا،پاکستان میں صیہونی ذہنیت رکھنے والے قلم فروش ”اسرائیل تسلیم کرو” اپنے کالموں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوا رہے تھے،لیکن تدبیر کند بندہ،تقدیر زند خندہ،بالکل اچانک سے حماس کے مجاہدین نے اسرائیل پر جہادی یلغار کر کے منافقین کے ”اسرائیل تسلیم کرو گروہ” کے منہ پر کالک مل دی،میری اس گروہ کے خرکاروں سے گزارش ہے کہ وہ فوراً اسرائیل پہنچ کر صیہونی فوجیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر فلسطینی مجاہدین کا مقابلہ کرکے دیکھ لیں،خدا اس گروہ سے پاکستان اور امت مسلمہ کو نجات عطا فرمائے آمین ، ہم جیسے مسلمان تو اسرائیل اور اس کے یہودی نخچیروں کو کل بھی جوتے کی نوک پر لکھتے تھے،اور آج بھی لکھتے ہیں، لیکن ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ”اسرائیل پر حماس حملے نے مغربی میڈیا کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے،تجزیہ نگار اور مبصرین اسے اسرائیل کے لیے بدترین دن قرار دے رہے،کوئی اسے اسرائیل کا نائن الیون اور کوئی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دے رہا ہے،ایک طرف سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ہوتی مفاہمت میں رکاوٹ تو کوئی اسے یوکرائن جنگ توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہا ہے۔
امریکی اخبارلاس اینجلس ٹائمز لکھتا ہے اسرائیل کے خلاف حملہ مشرق وسطی میں سفارتی اور سیاسی منظر نامے کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دے گا اور واشنگٹن کو اسرائیل پر اثر انداز ہونے کے لیے جو بھی فائدہ حاصل ہے اس سے محروم کر دے گا۔ اس کے بعد ابھرنے والا اور فوری سوال یہ ہوگا کہ کیا لڑائی غیر مستحکم خطے تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں لبنان یا دوسرے علاقے شامل ہیں، غیر معمولی تشدد کا ایک اور فوری نقصان اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو کھولنے کے لیے امریکی حمایت یافتہ کوششیں ہوں گی۔ اس معاہدے پر مہر لگانے کے لیے، سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل سے متعدد رعایتوں کا مطالبہ کر رہا ہے، جس میں ایسے اقدامات بھی شامل ہیں جو فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست کے قیام کے قریب لے جائیں گے۔ اس رعایت کی نیتن یاہو اور اس کی انتہائی قدامت پسند حکومت نے ثابت قدمی سے مزاحمت کی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے پاس فلسطینیوں کے لیے حالات کو بہتر بنانے کے لیے نیتن یاہو سے مراعات لینے کے لیے جو بھی فائدہ تھا، وہ مکمل طور پر غائب ہو گیا ہے’ سابق سفیر آرون ڈیوڈ ملر نے کہا نارملائزیشن کو ایک اہم دھچکا لگا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ سب کہاں جارہا ہے، لیکن ہر طرف خون خرابہ ہو گا۔ اسرائیل، واشنگٹن اور اتحادیوں کو اچانک، بڑے پیمانے پر حملے سے صدمہ پہنچا، جو اس حد تک وسیع پیچیدگی اور نفاست سے کیا گیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشن کا کہنا ہے حیران کن فلسطینی حملے نے مشرق وسطی کی وسیع جنگ کے خدشات کو جنم دیا۔ حیرت انگیز حملے سے اسرائیلی افواج کی طرف سے بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی جائے گی اور ممکنہ طور پر اس کے پورے خطے میں سیکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے، حماس اور اس کے حامیوں کے نقطہ نظر سے، عدلیہ میں اہم تبدیلیاں کرنے کی کوششوں پر مظاہروں کے پیش نظر اسرائیل کمزور اور منقسم دکھائی دے رہا تھا’ اسرائیل پر حملوں کے لیے کسی ایرانی جز کے امکان کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ یروشلم اور تہران کے درمیان جاری شیڈو وار میں شدت آئے۔
امریکی جریدہ فارن پالیسی لکھتا ہے جانوں کے ضیاع اور یرغمال بنائے جانے کی وجہ سے دراندازی اسرائیل کے لیے تباہ کن ہے’ یہ حملہ اسرائیلی انٹیلی جنس کی بڑی ناکامی ہے’ اس حملے نے اسرائیل کے ساتھ بیرونی مبصرین کو بھی حیران کر دیا’ اسرائیلی حکام پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ انٹیلی جنس کی بڑی ناکامی تھی’حکمت عملی کے مطابق، اسرائیل حماس کی سرحد پار سے جنگجوئوں کو گھسنے اور بصورت دیگر اسرائیل کی ناک کے نیچے بڑے پیمانے پر آپریشن کرنے کی صلاحیت کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہ حملہ حکمت عملی کے لحاظ سے بھی ایک حیرت انگیز تھا، کیونکہ اسرائیل لڑائی میں اتنے ڈرامائی اضافے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اور حملے کا وقت صرف شرمندگی کو بڑھا دے گا، جیسا کہ یہ 1973 ء کے حیرت انگیز حملے کی 50 ویں برسی کے تقریبا دن پر پیش آیا جو شاید اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ اس کی ایک وجہ اسرائیلی رہنمائوں کی طرف سے ایک حد تک مطمئن ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ کئی سالوں سے کامیابی کے ساتھ حل ہوتا نظر آ رہا ہے،اسرائیلیوں نے حماس کی ذہانت کو بھی کم سمجھا ہو گا، یہ مانتے ہوئے کہ یہ گروپ اپنی ماضی کی ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھے گا۔ اس کے باوجود مبصرین نے طویل عرصے سے خبردار کیا ہے کہ فلسطین کی صورت حال ابل رہی ہے ،یہ لڑائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نیتن یاہو کو دیگر اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ کی طاقت کو بہت کمزور کرنے کی اس کی کوششوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، اور خود ان پر رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا اس کے علاوہ، وہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت پر انحصار کرتا ہے، جس میں کئی کھلے عام نسل پرست وزرا ہیں جنہوں نے طویل عرصے سے فلسطینیوں کے ساتھ سخت سلوک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یرغمالی ڈرامہ صورتحال کو پیچیدہ کر دے گا۔ برطانوی اخبار گارڈین لکھتا ہے اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے کے فورا ً بعد دو اہم سوالات ہیں یہ حملہ کیا حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا، اور اب کیوں؟ حماس کی عسکری قیادت اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہے۔ اگرچہ امریکہ اور سعودی عرب طویل عرصے سے یہ سمجھ چکے ہیں کہ معمول پر آنے والی کسی بھی پیشرفت کا انحصار دو ریاستی حل کی جانب ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ اس سال کے اوائل میں بھی سعودی عرب اور حماس کے درمیان پیچیدہ اور کشیدہ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی ،حماس کے وفد نے سات سالوں میں پہلی بار ریاض کا دورہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ حماس نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اسرائیلی دراندازی کے ردعمل کے طور پر حملے کو تیار کیا ہے، اس نے اس تنازعے کو شروع کرنے کا انتخاب کیا۔برطانوی اخبارفنانشل ٹائمز لکھتا ہے حملے نے اسرائیلیوں کے اپنی انٹیلی جنس سروسز پر اعتماد کو متزلزل کر دیا۔
حماس کی کارروائی 2000 ء میں کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس کے دوران متوقع اسرائیل فلسطینی امن منصوبے میں خلل کے متوازی ہے ‘ سعودی عرب اور قطر کی طرف سے اسرائیل کو حماس کے حملے کا ذمہ دار ٹھہرانے والے بیانات سعودی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کو خطرے میں ڈالتے ہیں ،اب سفارتی تعلقات کے معمول پر آنے کا کوئی امکان نہیں جیساکہ توقع کی جا رہی تھی۔