تحریر: حفیظ اللہ نیازی
نواز شریف نے 28ویں روزہ کی افطاری پر مدعو کیا۔ افطاری بہانہ، حاصل ملاقات سوا 2 گھنٹے کی بامقصد گفتگو تھی۔ خیال تھا کہ میٹنگ کے بارے میں کالم لکھوں گا۔ 14اپریل ایران کے اسرائیل کیخلاف “آپریشن سچا وعدہ” کو تمام دُنیا اور عالمی میڈیا دن رات موضوع بنا چُکے ہیں۔
14 اپریل 2024سے پہلے اسرائیل کی جنگی اور دفاعی صلاحیت کا زمانہ معترف تھا۔ ایران نے بذریعہ 170بوسیدہ ڈرونز، 120کروز میزائل، 20سکڈ میزائل مع 3 SUPER SONICS اسرائیل پر بارش کر دی۔ بقول اسرائیل انکی جدید دفاعی شیلڈ نے 95 فیصد ایرانی حملہ ناکارہ بنا دیا۔ ایران کی حکمت عملی میں 5 فیصد ٹارگٹ ہٹ کرنا، اسرائیلی دفاعی صلاحیت اور تنصیبات کی MAPING کرنا تھا، حاصل کیا۔
7اکتوبر 2023عزالدین القاسم بریگیڈ نے مشہور زمانہ جاسوسی نظام مع بہترین فوج کو دھول چٹائی۔ جواباً اسرائیل حماس کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان چُکا ہے۔ چند دنوں بعد بذریعہ آپریشن”SUMMER RAIN”ـ، پچھلے 6 ماہ میں معصوم شہریوں (فلسطینی خواتین، بچوں کی کثیر تعداد) کی نسل کشی اور ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد، گرجا گھروں کو ملیا میٹ کرنے کے علاوہ خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ حماس کے ملٹری ونگ عزالدین القاسم بریگیڈ نے 7اکتوبر 2023 کو آپریشن “طوفان الاقصی ” AQSA FLOOD ” کیا تو دنیا کو دنگ کر دیا۔ شرمندگی اور بے عزتی کی انتہا کہ 30ہزار نیم تربیت یافتہ القاسم بریگیڈ کیخلاف 3لاکھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج طول و عرض میں نبرد آزما ہے، روزانہ کی بنیاد پر فوجی جانی اور دفاعی نقصان اٹھا رہا ہے۔ 7 اکتوبر سے سال بھر پہلے اسرائیل نے ہمہ وقت جنگی تیاری کیلئے بڑی فوجی مشقیں کیں۔ اس مشق میں لبنان، شام، مصر، عراق اور سمندر جانب بیک وقت ممکنہ حملوں پر جہاں لاکھوں فوج متعین کی، وہاں غزہ کیلئے صرف چند ہزار فوجی ضروری سمجھے۔ آج اسرائیل کی 60فیصد فوج صرف غزہ کیخلاف آپریشن میں مصروف ہے۔
غزہ کی کل آبادی 20لاکھ ،جون 2007سے غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل اور امریکا نے حماس کو دہشتگرد تنظیم کا درجہ اور غزہ کے تمام مکینوں کو حماس کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے، تمام مکینوں کی نسل کشی میں سینہ سپر ہے۔ سوائے ایران اور حزب اللہ کے خوابیدہ عالم اسلام سُن اور بے بس، مجرمانہ خاموشی تھی۔ اسرائیل نے حماس کے بانی 70 سالہ اپاہج احمد یاسین کو بم مار کر شہید کر دیا، بے شمار رہنما بہیمانہ طریقے سے شہید کئے۔ ایران اور حزب اللہ کے سوا کسی نے سوگ منایا نہ احتجاج کیا۔ حماس اخوان المسلمین کی آف شوٹ یا بہ الفاظ دیگر جماعت اسلامی طرز پر ایک نظریاتی تنظیم ہے، ایران کے نظریاتی فکر و نظر سے 180 ڈگری پر ہے۔ آفرین! ایران نے ایک سچا کھرا بہادر مسلمان ہونے کا ثبوت دیا۔ حماس کا (1987) سے یکسوئی سے ساتھ دے رہا ہے۔
1980 سے ایران آزادی فلسطین کیلئے کمر بستہ ہے۔ ایران اور پوری دُنیا کے اہل تشیع ہر ماہِ رمضان جمعتہ الوداع پر فلسطینیوں کی حمایت، اسرائیل کے قبضہ سے فلسطین کو آزاد کرانے کیلئے “یوم قدس” مناتے ہیں۔ باقی تمام مسلمان ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں۔ 2022/2023سے بعض عرب ممالک نے مقدس زمین پر یہودی عبادت گاہوں کی تعمیر کر رکھی ہے۔ یقینا ًالقاسم بریگیڈ نے ایسوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ حماس کا اسرائیل پر بھرپور حملہ سیاسی جنگی منظر نامہ اور جیو پالیٹکس تبدیل کر چُکا ہے، میرے لئےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک پلک جھپکتے اسرائیل کیساتھ جڑ گئے۔ آج اپنےعوام کی نظروں میں جنگی عزائم کے مرتکب ٹھہرائے گئے ہیں۔
آپریشن “طوفان الاقصیٰ ” کے چند ماہ تک بڑے بڑے جغادری دانشور اور راسخ العقیدہ سُنی/ وہابی مسلمانوں کو یہ باور کرانا مشکل تھا کہ یہ جنگ اسرائیل کا “واٹر لو” ثابت ہوگی۔ طوفان الاقصیٰ کے جواب میں جب اسرائیلی آپریشن SUMMER RAIN اس خواہش کیساتھ شروع کیا گیا کہ ایران، شام اور حزب اللہ جنگ میں ضرور کودیں گے۔ ایک ہلے میں سب کی خبر لیناتھی ۔ ایران نے انتہائی شعور، MATURITY کا ثبوت دیا۔ عقلمندی، تحمل اور بردباری سے خود بھی اور شام اور حزب اللہ کو جنگ سے باہر رکھا۔ حماس کی حوصلہ افزائی اور سفارتی پشت پناہی میں کوتاہی نہ برتی۔ غزہ کے 20 لاکھ مکینوں اور غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے عزم پر عالمی رائے عامہ بشمول امریکا یورپ وغیرہ اسرائیل کیخلاف ہو چُکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں 174ممالک نے فلسطینی ریاست کی حمایت کر ڈالی جبکہ بین الاقوامی عدالت نے اسرائیلی وحشیانہ بمباری کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دے دیا۔ یکم اپریل کو ایرانی سفارتخانہ پر حملہ اسرائیل کی فرسٹریشن ہی تو تھی۔ ایران کو ملوث کرکے کئی فائدے نظر آئے ۔ایران کا جواب بنتا تھا۔ 14 اپریل کو ایک ناقابلِ یقین آپریشن “سچا وعدہ” کرکے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرکس نکال دیا، ایران کی لاجواب حکمت عملی پر پوری دُنیا ایسی حیران و پریشان کہ مذمت نہ حمایت کی پوزیشن میں۔ ایران نے 3 دن پہلے امریکہ، ترکیہ، ہمسائیوں کو حملہ کے طول و عرض بارے پیشگی بتا دیا۔
وزیراعظم نیتن یاہوبدحواس جبکہ انتہا پسند یہودی بھنا رہے ہیں ۔5 دن سے سر جوڑے بیٹھے، ایران کو موثر جواب دینے کا سرا نہیں مل پا رہا۔ ایران نے متنبہ کر رکھا ہے کہ ” جنگ کو بڑھنے نہیں دینا، بصورت دیگر ایسا ردِعمل آئے گا کہ صہیونی نسلیں صدیوں یاد رکھیں گی۔ ایران اب بھی لبنان اور شام میں اپنے اتحادیوں کو اسرائیل کی جنگ کو بڑھانے کی کوشش کو ناکام بنانے کا کہہ رہا ہے ۔ اسرائیل بین الاقوامی طور پر تنہا رہ گیاہے ۔ امریکہ جنگ سے نکلنے کے چکر میں ہے ۔ ایرانی حملہ نے عالم اسلام کے دل سے اسرائیل کا خوف ختم کر ڈالا ہے۔ اسرائیل کا بحیثیت ریاست وجود متزلزل ہے۔ ان حالات میں اسرائیل کی آسودگی اور تالیف صرف اور صرف ایٹمی ہتھیار کے استعمال میں ہے۔ ایسی غلطی دُنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دے گی ۔کسی قسم کا ایڈونچر اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ہوگا۔ دو انتہائی اہم سمندری گزرگاہیں ” آبنائے ہرمز ” اور آبنائے المندب یا باب المندب (جبوتی اور یمن کے درمیان) کے بند ہونے کی صورت میں پوری دنیا معاشی اور تیل کے بحران میں ہو گی ۔ ایران ہمہ وقت ہر قسم کی صورتحال سے نبٹنے کیلئے تیار ہے۔ عالمی طاقتیں اندرون خانہ نروس ہو چکی ہیں۔
جنگ پھیلی تو روس، چین، ایران اور شمالی کوریا یک جان چار قلب جبکہ امریکہ یورپ بشمول اسلامی ممالک کے دوسری طرف ہونگے۔ پچھلے چند سال میں ایران سفارتی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چُکا ہے۔ شنگھائی اقتصادی کونسل کا ممبر بننے سے لیکر سعودی عرب اور خلیجی ممالک سمیت تمام ہمسائیوں کیساتھ مثالی تعلقات قائم کر چُکا ہے۔ فیصلے کی گھڑی پوری دنیا کے سر پر آن کھڑی ہے۔ اسرائیل نے عقل اور RESTRAIN کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جبکہ اسرائیل کے سر پر اپنی ساکھ بچانے کیلئے جنگی جنون سوار ہے۔ ایسی ہر کوشش میں یقینا ًاسرائیل اپنا وجود کھو بیٹھے گا، دیوار پر کندہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ