تحریر: وسعت اللہ خان
اسرائیلی انٹیلی جینس سروسز کے پاس عام فلسطینیوں کی روزمرہ گفتگو کی ریکارڈنگز کا لامحدود خزانہ ہے۔اس کی مدد سے یونٹ بیاسی سو کے ماہرین نے چیٹ جی پی ٹی کی طرح کا اپنا اے آئی پروگرام بنا لیا ہے جسے فلسطین ، ہمسایہ ممالک اور دور دراز شمالی افریقہ و سوڈان تک میں بولی جانے والی عربی کے سیکڑوں لہجوں کی پہچان اور روزمرہ گفتکو میں سے کام کی بات نکالنے کا عادی بنانے کے لیے ہزاروں گیگا بائٹ ڈیٹا فیڈ کیا جا ر ہا ہے۔
یہ ڈیٹا مختلف عربی لہجوں میں سو بلین سے زائد بولے گئے الفاظ اور ان الفاظ کی طرزِ ادائی پر مشتمل ہے۔جن لاکھوں عربوں کی بے ضرر گفتگو چوری کر کے یہ صوتی خزانہ مرتب کیا گیا ہے۔انھیں معلوم بھی نہیں کہ ان کی عام سی گفتگو کی مدد سے انھی کی نگرانی کے لیے کیسے کیسے تربیت یافتہ اے آئی ٹولز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کے بنیادی اصولوں پر تشکیل دیا گیا یہ اسرائیلی پروگرام’’ لارج لینگویج ماڈل‘‘ ( ایل ایل ایم ) کہلاتا ہے جو نا صرف مہیا کردہ معلومات کا تجزیہ کر سکتا ہے ، ان کی بنیاد پر پیش گوئی کر سکتا ہے ، طولانی گفتگو کا خلاصہ کر سکتا ہے بلکہ عبرانی سمیت کسی بھی مطلوبہ زبان میں تیزی سے ترجمہ کر سکتا ہے۔
اس پروگرام کی مدد سے فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کے گرد گھیرا مزید تنگ کر کے گرفتاریوں اور ہلاکتوں کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے۔اس طرح کے ٹولز کے ذریعے محض ’’ دھشت گردی‘‘ اور اسرائیل مخالف بلوؤں کی روک تھام ہی مقصود نہیں بلکہ اس کے دائرے میں انسانی حقوق کے کارکنوں سے لے کر عام فلسطینی کی گھریلو یا گھر سے باہر کی زندگی کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا بھی ہے۔
اس پروگرام کی تیاری میں ان رضاکار ماہرین نے بنیادی کردار ادا کیا جنھیں مائکرو سافٹ ، گوگل اور میٹا جیسی کمپنیوں میں کام کرنے کا تجربہ ہے اور ان کی رسائی ان کمپنیوں میں اے آئی پروگرامنگ کے اس کانفیڈنشل مواد تک رہی ہے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔تاہم یہ عالمی کمپنیاں اسرائیلی ایل ایل ایم پروگرام کی تیاری میں اپنے سابق و حاضر ملازمین کے کردار کی نہ تصدیق کرتی ہیں نہ تردید۔
ایل ایل ایم چیٹ باٹ منصوبے سے منسلک ایک اسرائیلی ماہر جوزف سیدوف نے اے آئی کے استعمالی امکانات کے موضوع پر گزشتہ برس تل ابیب میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بتایا کہ ہم ایک ایسے اے آئی پروگرام پر کام کر رہے ہیں جو تمام انسانی سراغرسانوں کی چھٹی کرا سکتا ہے۔ہر پانچ منٹ بعد یہ پروگرام دستیاب معلومات کے سبب پیش گوئی کر سکے گا کہ کون کون ممکنہ دہشت گرد ہو سکتا ہے۔حکام کا کام بس اتنا ہو گا کہ وہ اس چیٹ بوٹ کے تجزیے اور اپنے ذرایع سے حاصل تازہ ترین معلومات کا موازنہ کر کے کسی بھی شخص تک رسائی یا پوچھ گچھ یا حراست یا ہلاکت کا فیصلہ کر سکیں۔گویا یہ پروگرام انتظامی فیصلوں تک پہنچنے کی رفتار کئی گنا بڑھا دے گا۔
یونٹ بیاسی سو نے اپنے لارج لینگویج ماڈل (ایل ایم ایم ) کی تیاری کے لیے ابتدائی طور پر چیٹ جی پی ٹی کی مالک اوپن اے آئی سے بھی اس کے نیٹ ورک سے اس پروگرام کو منسلک کرنے کی بات کی مگر اوپن اے آئی نے کانفیڈنشل تکنیکی تعاون سے انکار کر دیا۔چنانچہ یونٹ بیاسی سو نے مائکرو سافٹ کی معرفت اوپن اے آئی لینگویج ماڈل خریدا اور اس کی بنیاد پر اپنے ایل ایل ایم پروگرام کو اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔
اس کام کے لیے نجی ہائی ٹیک اسرائیلی کمپنیوں میں کام کرنے والے شہریوں کی خدمات تین سالہ لازمی فوجی سروس کے قانون کے تحت مستعار لی گئیں۔تاکہ ایل ایل ایم محض ایک روائیتی سرچ ٹول کے بجائے ایک لسانی عالم اور تجزیہ کار کے طور پر سوالات کا تشفی بخش فوری جواب دینے کے قابل ہو سکے۔
ابتدا میں جو لینگویج ماڈل بنایا گیا وہ صرف کتابی و معیاری عربی لہجوں کی شناخت ہی کر سکتا تھا۔مگر اسے عربی کی ذیلی بولیوں اور لہجوں کی شناخت کے کٹھن کام پر لگایا گیاتاکہ ان لوگوں کا لسانی لہجہ دسترس میں آ جائے جن کے بارے میں مسلسل جانکاری مطلوب ہے کہ ان کا کن کن مشکوک لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا یا ہے۔ان کا ماضی کس نوعیت کا ہے۔ذاتی خیالات کیا ہیں۔کیا یہ آگے چل کے کسی قسم کا خطرہ بن سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جو لوگ ایل ایل ایم کی تیاری سے منسلک ہیں ان میں سے کچھ کی رائے ہے کہ اگرچہ یہ پروگرام مثالی اور نہائیت فائدہ مند ہے مگر انسانی مشاہدے اور قوتِ فیصلہ کا سو فیصد بدل ہرگز نہیں۔لامتناہی انسانی ذہن کے برعکس ہر مشین اسی ڈیٹا کی مدد سے فیصلے کرتی یا جواب دیتی ہے جو انسان نے اسے فیڈ کیا ہو۔چنانچہ اس پروگرام کا کوئی بھی غلط جواب یا ناقص تجزیہ بعض اوقات سنگین مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ایل ایل ایم عملاً ایک جادوئی ٹول سمجھ کے وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جن کی اس پروگرام کی تیاری اور اس کی کمزوریوں سے زیادہ واقفیت نہیں ۔یہ وہ مسئلہ ہے جس کا فی الحال کوئی تشفی بخش حل نہیں اور حل کے انتظار میں اے آئی ٹولز کا استعمال روکا بھی نہیں جا سکتا۔چنانچہ ان ٹولز کے اچھے برے ہونے کی قیمت اسے ادا کرنا پڑتی ہے جس پر یہ ٹول استعمال ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا ، فون کالز اور روزمرہ گفتگو جیسے کھلے ماخذوں سے حاصل ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور مختصر و طویل المیعاد حکمتِ عملی وضع کرنے کے لیے صرف اسرائیلی ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے حساس ادارے بشمول امریکی سی آئی اے اور برطانوی انٹیلی جینس بھی اے آئی ٹولز استعمال کر رہے ہیں۔مگر ان شعبوں سے منسلک چند امریکی و برطانوی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل تمام تکنیکی احتیاطیں ملحوظ نہ رکھتے ہوئے جس طرح اے آئی ٹولز کا اندھا دھند عسکری و انٹیلی جینس استعمال کر رہا ہے وہ تسلیم شدہ حدود و ضوابط سے باہر ہے۔
اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ انھیں ہمسایہ ممالک اور مقبوضہ علاقوں میں جو غیر معمولی سیکیورٹی حالات درپیش ہیں ان سے نپٹنے کے لیے اگرچہ مقدور بھر احتیاط کی جاتی ہے لیکن جہاں قومی سلامتی اور اے آئی ٹولز کے درست استعمال میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑ جائے تو لامحالہ قومی سلامتی کو پہلے دیکھنا پڑتا ہے۔(جاری ہے)۔