تحریر: عاشق حسین ولایتی
أن لقتل الحسین حرارة فی قلوب المٶمنین لاتبرد أبدا۔۔ اربعین سید شہدا کی حرکت درأصل اس حدیث مبارکہ کی عملی تفسیر اور حرارت فی القلوب المٶمنین کو واضح کرتی ہے اور اس حرارت کو مقدمہ قرار دیتی ہے ایک ایسی حقیقت کے غلبہ کی طرف جس کا عقیدہ اور جس کی طرف تمایل تمام انسانوں کی فطرت میں پاٸی جاتی ہے یعنی معاشرہ انسانی ایک ایسے نظام عدل وقسط کی تلاش میں جس کی بنیاد أمن وأطمنان قلبی پر مبنی ہو۔۔۔اس کتابت کے اندر مختصرا أپنے عنوان کو تبین کرنے کی کوشش کروں گا۔۔
اربعین عربی زبان کا لفظ ہے جس سے فارسی زبان میں چھلم اور اردو زبان میں چالیسواں کہتے ہیں۔۔ یعنی کسی بھی عمل یاحرکت کو چالیس دن جب ہوجاۓ تو اس کے 40ویں دن کو اربعین یا چہلم کہا جاتا ہے۔۔
چالیس روز کے حوالہ سے دین اسلام میں بھی خاص أہمیت حاصل ہے؟؟۔۔ چالیس روز کو تعلیمات اسلام میں بھی کچھ روایت کے مفہوم کے مطابق کافی اہمیت حاصل ہے۔۔
رسول خدا سے روایت ہے۔۔۔مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ اَلْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ.۔۔جو بھی چالیس روز خدا کے لیے مخصوص کرۓ گا اس کے قلب میں حکمة کا چشمہ نکل آۓ گا اور اسکے زبان میں حمکت جاری ہوگی۔۔اس کے علاوہ علمإ اخلاق کے مطابق بھی چالیس آیام کو خاص اہمیت حاصل ہے۔۔اگر کوٸی أپنے اندر سے کوٸی صفت ختم کرنایااس صفت سے متصف ہونے کاارادہ کرتاہے تو اس کے لیے وہ چالیس روز کو معین کرۓ اور انہی أیام میں مراقبت کرۓ تو اس اندر ارادہ کی تقویت کے ساتھ اس پر گرفت حاصل ہوگی اور ملکہ پیدا ہوگا اور وہ اس صفت سے متصف ہوگا۔۔
چالیس روز کے حوالہ سے اسلام میں مختلف جہات سے خاص موضوعیت حاصل ہے۔۔اسی طرح اربعین أباعبداللہ کے حوالہ سے بھی تعلیمات اھل بیت میں اور سیرت اصحاب اھل بیت وعلمإ میں خاص اہمیت کے ساتھ اس کے أحیإ پر بھی تاکیدی ملتی ہے۔۔
اربعین أباعبداللہ کو بعد از کربلا یعنی 61 ہجری میں سب سے پہلے کس نے اس کی بنیاد رکھی اور أحیإ کیا؟؟
اس حوالہ سے دوطرح کے أقوال ہے۔۔ایک قول جس سے متعلق تمام علمإ امامیہ کا أتفاق ہے۔۔وہ صحابی رسول خدا حضرت أبو ایوب أنصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق ہے کہ آپ نے اسی سال 61ہجری کو 20صفرکو کربلا گۓ اور زیارت اباعبداللہ انجام دیا اور اربعین حسینی کو أحیإ کیا اور اسکی بنیاد رکھی۔۔یہاں ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ جناب ابوایوب أنصاری رسول خدا سے لے کر امام باقر علیہ سلام تک پانچ معصومین کی زیارت کرچکیں ہیں اور اس بات کی بشارت رسول خدا نے خود دی تھی کہ آپ میرے چوتھے فرزند سے ملاقات فرماٸیں گۓ تو میراسلام ان تک پہنچانا۔۔
دوسرا قول۔۔اسیران کربلا کی رہاٸی زندان شام کے بعد کا ہے۔۔جس میں أختلاف ہے لیکن أکثر علمإ امامیہ کانظریہ یہ کہ اسیران کربلا بعداز رہاٸی واپس شام سے مدینہ چلے گۓ ۔۔صرف جناب سید ابن طاووس صاحب مقتل الھوف اس بات کے قاٸل ہیں کہ اسیروں کا قافلہ بعد از رہاٸی کربلا گیااور وہاں انکی ملاقات جناب حضرت ایوب انصاری سے ہوٸی۔۔
اس کے علاوہ خود حضرت أباعبداللہ کی زیارت سے متعلق باقی أٸمہ نے بہت زیادہ تاکید فرمایا اور ایک زاٸر امام کے مقام کو بیان کیا ہے۔۔اور زیارت أباعبداللہ کوأحیإ کرنا مومن وایمان کی نشانی اور اس کی زمداری قرار دی ہے۔۔
دوروایات صرف اہمیت زیارت أربعین وزیارت أباعبداللہ پر بیان کروں گا۔۔۔
ایک روایت امام حسن عسکری علیہ سلام سے ہیں جو کہ معروف ہے امام نے جس میں مومن کی پانچ علامات ذکر فرمایاہے جس میں سے ایک۔۔زیارت اربعین کی تلاوت ہے یعنی اربعین کوأحیإ کرنا اربعین اباعبداللہ کی زیارت کے زریعہ تجدید عہد کرنا صبح وشام أپنے امام سے۔۔
خود زیارت کا فلسفہ کیا ہے اور زیارت کےمعنی کیا ہے اور اس حکمت عملی کو أٸمہ نے بنوأمیہ وبنوعباس کے استکباری واستبدادی عصر میں کیوں أحیإ فرمایا اوراسقدر تاکیدکیوں فرمایا اس میں خود ایک پس منظر ہے جس کو پھر کبھی بیان کرینگۓ۔۔
دوسری روایت امام صادق صلواة اللہ علیہ سے ہے۔۔مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ ع عَارِفاً بِحَقِّهِ يَأْتَمُ بِهِ غَفَرَ [اللَّهُ] لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَلَمْ يَكُنْ لَهُ عِوَضٌ غَيْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً جو امام حسینؑ کی زیارت کرتا ہے ،جبکہ وہ امام کے حق کی معرفت رکھتا ہے اور ان کی پیروی بھی کرتا ہے،اللہ اس کے پچھلے اور اگلے سارے گناہ معاف کرتا ہے۔ ۔۔ اس کا صلہ سوای جنت کے کوئی چیز نہیں ہے اور اس کے رزق میں وسعت دی جائے گی۔۔
اس روایت میں امام نے معرفت بحقہ کی قید لگایا۔۔جس زیارت کی بنیاد معرفت بحقہ ہوگی اس زیارت کے أثرات یہ ہونگۓ کہ اس مومن کی حیات میں پاکیزگی ایجاد ہوگی اور وہ مومن حیات طیبہ میں داخل ہونگۓ۔۔[فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً]۔۔اور اس آیت کے مصداق ہونگۓ جو بھی مومن مرد وعورت عمل صالح انجام دے زیارت معرفت بحق تو خدا اسکو حیات طیبہ عطإ کرۓ گا۔۔۔
لیکن یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ لازمی ہے اس قدر تاکید اور تاریخی لہذا سے اہمیت کے حامل عمل کی حکمت کیا ہوسکتی ہے اربعین حسینی جو کہ آج ایک عالمی نہضت ومومنٹ میں داخل ہوچکی ہے جس کے خلاف استکبار واستعمار جہاں أپنے ایونوں میں شدید خوف کے عالم میں مبتلا ہیں اوراس نہضت کو رکنے کے لیے ہرطرح کی سازشیں کی جارہی ہے۔۔
اس کو کیوں زندہ رکھنالازمی ہے۔۔آیا بذات خود یہ مقصود ہے یا یہ مقدمہ ہے کسی امر الہی کے غلبہ اور ظہور کے لیے۔۔؟؟
ہم تاریخ کااگر دقیق مطالعہ کریں ایک مکتبی نگاہ کے ساتھ تو۔أٸمہ معصومین علیھم سلام کی 250سالہ حیات کی تمام تر جہدوجہد چاہے وہ سیاسی ہویامذہبی ہو ثقافتی ہویاأقتصادی ہو تمام کو أٸمہ نے مقدمہ قرار دیا ہے کسی أعلی ہدف کے لیے جس کا حصول ونفاذ کے لیے ہر طرح کی قربانی دی جاسکتی ہے۔۔اور اس ہدف اعلی وارفع کو دعاۓ افتتاح میں بیان کیاہے۔۔ اللھم نرغب الیک فی دولة الکریمہ
مقدمہ یعنی ہروہ فعل یاحرکت یاعمل جو کسی دوسرۓ ہدف ومقصد تک پہنچنے یاسمجھنے کا سبب بنے۔۔اس طرح کہ اس کو أحیإ کۓ بغیر اس ہدف کا زندہ ہونایاحاصل ہونا ممکن نہی۔۔
أسی طرح اربعین کا أحیإ بھی ایک امر مقدماتی ہے جس کا أحیإ بذات خود لازم وضروری نہی۔ بلکہ ایک مقدمہ ہے کسی اعلی وارفع ہدف کے لیے بس ضروری یہ ہے کہ اس اربعین کو جومقدمہ ہے اسے اسی نہج و راستہ پر رکھاجاۓ جس کے لیے اسکو أٸمہ نے زندہ رکھنے کی تأکید فرمایاہے۔
الحمداللہ اربعین حسینی کی جوشکل آج أختیار کیا ہےایک مکتبی دین شناسی کی دید سے نگاہ کریں تو یہ اجتماع درأصل حب الحسین یجمعنا کہ پرچم تلہ اور اس شعار کے ذریعہ تمام بشریت کے مظلومین ومستضعفین کی أمید بن کر أبھر رہی ہے۔۔اور أس آیت کا مصداق بن کر کہ خدا کا ارادہ ہے کہ مستضعفین کو زمین کی امامت ورہبری عطإ کرۓ گا اس سنت الہی کے اجراہ کا آغاز ہوچکا ہے۔۔جس کی نشانی یہ ہے کہ اس اجتماع سے دشمن زیادہ خوفزدہ ہے۔۔اس کو اس کے أصلی نہج سے دور کرنے پر تولا ہواہے لیکن یہ انکا مکر ہے اور اس کے مقابل میں مکر الہی بھی ہے۔۔
اربعین جیساکہ ذکرکیا اوپر مقدمہ ہے جس کا أحیإ لازمی ہے یہ درأصل ظہور مہدویت کا مقدمہ ہے اس بات کا اندازہ یہاں سے کیاجاسکتاہے۔۔جیسا کہ مشہور فرانسیسی نظریہ دان فوکومایا نے کہاتھا۔۔تشیع دو پروں کے ذریعہ پروازکررہاہے ایک سرخ بال ہے جوکہ انکاماضی ہے عاشورا وکربلا واربعین جس نےتشیع سے موت کاخوف ختم کردیاہے جسکو سرخ ماضی کہاجاتاہے۔۔
اور ایک بال سبز ہے یعنی روشن مستقبل ہے انکے پاس ایک قوی اور عقلی نظریہ ہے جس میں انسانیت کی بقإ شامل ہے جو کہ تمام انسانوں کی فطری تمایل کا جواب ہے جس کی وصیت اور نصیحت تمام ادیان الہی کی کتب میں سابق أنبیإ علیھم سلام نے أپنی أمتوں کو کردیاہے۔۔جس أمید کی بہترین عقلی ومنطق انسانی کی شکل گیری فقد مکتب کربلا وعاشورا کے پاس موجود ہے۔۔اربعین سید الشھدأ آج کے عصر میں مقدمہ ہے اس نظریہ کے أحیإ ونفاذ کے لیے۔۔
اربعین کا یہ واک جس کو عربی میں مشی کہا جاتا ہے۔۔۔
اس حرکت کے دوران جو ثقافت آج دنیإ کے سامنہ پیش ہورہی ہے۔۔یہ مہدوی معاشرہ کی خصوصیات میں سے ہیں۔۔بقول رہبر معظم سید علی خامنہ ای اربعین حسینی تمدن اسلامی کو أحیإ کرنے کابہترین زریعہ ہے۔۔بس ہم کوشش کریں اس میں تمدن اسلامی جو کہ معاشرہ مہدوی کی خصوصیات کے نام سے روایات میں موجود ہے اسکو أحیإ کریں۔
اس مقدمہ مہدویت کے دو اہم فراٸض ہے
فرج یعنی ناہموار راستوں کو ہموار کرناہے یعنی بند راستوں کو کھل دینا ہے جو بند اس وقت مہدویت کے ظہور ونفاذ میں لگاہواہے وہ أمت تشکیل نہ پاناہے اس الہی واک کے ذریعہ أمت سازی جو کہ فلسفہ بعثت أنبیإ میں سے ایک ہے اسکو أنجام دیا جاۓ کنتم خیر أمة
رسول خدا نے اسی أمر کو انجام دیا اور سید الشھدا نے بھی قیام کے مقصد کو بیان کرتے ہوۓ یہی جملہ ارشاد فرمایا لطلب أصلاح فی أمت جدی مقصد عاشورا درأصل أمت سازی ہے کیونکہ دین کاأجتماعی نظام أمامت وأمت ہے۔۔اس فریضہ کا أحیإ لازمی اور ضروری ہے اربعین میں۔
ظہور یعنی غلبہ حاصل کرنا یاغلبہ پانا۔۔اربعین حسینی جو کہ مقدمہ ہے نفاذمہدویت کا اس میں ظہور کے أمر کو احیإ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔یہ أمر بھی درأصل فلسفہ بعث أنبیإ میں سے ایک ہے۔۔ هُوَ الَّذیِ اَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدی وَ دینِ الحَقِّ لِیُـظهِرَهُ عَلَی الدّینِ کُلِّه۔ ارسال رسول ھدایت و دین حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو غلبہ عطإ کرۓ تمام ادیان پر۔۔
یہاں ظہور کے معنی غلبہ ہے بس اربعین درأصل مقدمہ ہے غلبہ تمدن مہدویت کوأنجام دینے کا باقی تمام ادیان کے تمدن پر۔۔اگر اربعین کے اندر یہ دو اہم فراٸض انجام پاگۓ تو یہ اربعین أپنے ہدف کو حاصل کرلے گٸ۔۔کیونکہ عاشورا درصل أحیإ امامت کا نام ہے امامت کے لیے ناصرین کی ضروت ہے اورعزاردی واربعین ناصرین فراہم کرنے کا پروسس و منبع ہے جہاں سے ھل من ناصر ینصرنا کی صدإ پر آواز بلند کرکے لبیک یاحسین کو أپنے فریضہ سمجھنے والے پیروکار تیار کیۓ جاتے ہو۔
مہدویت کے نفاذ وغلبہ کے لیے ایک میدان سازی لازمی أمر وعقلی أمر ہےجس کا أحیإ ہم سب پر لازم ہے۔
آج کے عصر میں امام راحیل امام خمینی رحمةاللہ علیہ نے اسی امر عقلی کو بنیاد اور ضرورت قرار دے کر قیام فرمایا اور پیروان امامت کو اس مرد حر نے آگاہ کیا اگر امامت 14سال سے متروک ہے تو وہ ہماری وجہ سے ہیں ہم نے أپنے فریضہ کو انجام نہی دیا۔۔اگر شیعہ أپنا فریضہ انجام دیتاتو امامت کبھی متروک نہی رہتی۔ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے فریضہ کے تحت وہ میدان سازی کے فراٸض کو انجام دیں جو ظہور مہدویت کے لیے لازمی أمر ہے۔اور اربعین میں اس فریضہ کو آسانی سے انجام دیا جاسکتاہے۔۔
وسلام علی من تبع الھدی۔۔۔