تحریر: ڈاکٹر افتخار شفیع
مشرقی شعریات سے آگاہی کا شوق ہوا، چند سال پہلے مولانا جلال الدین رومی کی ”مثنوی معنوی “ پڑھنے کا موقع ملا، مولانا کے ہاں علوم وفنون کے بہتے ہوئے دریاﺅں کی فراوانی سے فیض پایا، مشرقی دانش سے معانقہ ہوا، مولانا کو پڑھتے ہوئے ایک بات نے مجھے حیران کر دیا۔ مولانا کی مثنوی میں موجود بہت سی حکایات مَیں پہلے ہی اپنے گاوں کے ان پڑھ لیکن جہاندیدہ بزرگوں سے سن چکا تھا۔ سچ کہیئے تو رومی کی مثنوی اور سعدی کی گلستان و بوستان کی قرات ہمارے لوک وسیب کا حصہ تھی۔ فارسی کے مغل دربار سے اخراج کے بعد انگریزی کا چلن شروع ہوا۔ اس زمانے میں کوئی ٹامی اگر انگریزی کے چند لفظ بولنا بھی سیکھ لیتا تو برصغیر میں اسے”عقلِ کل“ بنتے دیرنہ لگتی تھی۔ انھی دنوں میں ہمارے ہاں ” پڑھو فارسی بیچو تیل“ کا طنزیہ محاورہ عام ہوا، آج اس محاورے کی نفی کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ ایران دنیا میں تیل کے بڑے ذخائر رکھنے کے باوجود پابندیوں کا شکارہے۔ انھی دنوں کھوئے ہوﺅں کی جستجو میں ہم چند دوستوں کے ذہن میں دورہ آزفا (آموزش ِ زبانِ فارسی) کرنے کا خیال پیدا ہوا، کتابیں پڑھنا بھی شروع کیں، لیکن قسمت میں محرومی لکھی تھی۔
مجھے ایران اور پاکستان کے مرکز تحقیقات فارسی کا رسالہ ”دانش“ باقاعدگی سے ملتا تھا۔ اس میں تنقیدی و تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ جدید فارسی شاعری بھی پڑھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ اسی رسالے کے ذریعے میرا پہلا تعارف ایران میں مقیم نوجوان پاکستانی شاعر احمد شہریار کی فارسی غزل سے ہوا۔ اسی روز سے ان کی ”یک بوسہ دو اشک“ بات پر میرا ایمان پختہ ہوگیا۔ احمد شہریار کی اردو اور فارسی شاعری پاک و ہند کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہے۔ ایک نجی محفل میں انھیں ایرانی انقلاب کے سپریم کمانڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے سامنے حلقہ نشیں شاعروں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجلس میں اپنی فارسی غزل سنا رہے تھے۔ سچ پوچھیں تو یہ منظر دیکھ کر میرا سر فخر سے بلندہو گیا۔ اردو ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ان کی شاعری معاصر آوازوں سے منفرد اور جدا محسوس ہوئی۔ چند اشعار دیکھیے:
صف بہ صف بیٹھے ہوﺅں میں سب سے بہتر کون ہے
اجنبی حیران ہیں ان میں پیمبر کو ن ہے
کمانِ وقت سے نکلا تھا ایک تیرکبھی
جہاں میں سینہ سپر تھا ،ادھر نہیں آیا
وہ مری خامشی نہیں سنتا
مجھ سے آوازدی نہیں جاتی
ندامتیں اسے آوارہ کرگئیں احمد
وہ قتل گاہ سے نکلا تو گھرنہیں آیا
احمد شہریار سے جب بھی بات ہوئی، ان کے اندازِ گفتگو میں ایک خاص قسم کی شائستگی دیکھی۔ فارسی کے ایک شعر کا مفہوم ہے ”وہ علم،علم نہیں؛جوتجھے تجھ سے چھین نہ لے“۔ فارسی کے اساتذہ کے بیان کردہ مفہوم سے جب میری تشفی نہ ہوسکی تو ہمارے قصبے میں حقے کے پائپ پر طلا کاری کرنے والے مرحوم غلام علی نے اس شعر کا عقدہ کھولا۔ اس نے بتایا کہ ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے لوہار کی اپنی ذات کہیں گم ہوجاتی ہے، اور اس ماحول میں وہ سر سے لے کر پاﺅں تک لوہے سے ڈھلا ڈھلایا ایک وجود لگتا ہے۔ اسی طرح جو علم انسان کے پاس ہے، وہ اس کی ذات پر اس طرح حاوی ہونا چاہیے کہ اس کی اپنی ذات کی نفی ہوجائے اور وہ سرتاپا اپنے رنگ میں رنگا جائے۔ احمد شہر یار گفتار اور کردار کے لحاظ سے تہذیب و شائستگی کا پیکر ہے۔ احمد شہر یار کا تعلق بنیادی طور پر ہزارہ برادری سے ہے، ان کا لڑکپن کوئٹہ میں گزرا۔ اب وہ ایک مدت سے ایران میں مقیم ہیں، ان کی اہلیہ بھی ایک ایرانی خاتون ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم مہاراجاﺅں کے ایران کے بادشاہان سے گہرے روابط تھے، دونوں ملکوں کے بادشاہوں کے ہاں دونوں زبانوں کے ماہرین حاضر رہتے تھے۔ اسی زمانے میں ”اوستا“ کے ہندی اور ویدوں کے فارسی میں تراجم ہوئے۔ ہزاروں سال پہلے ”کلیلہ دمنہ“ کی داستان برصغیر سے ترجمہ ہو کر ایران اور وہاں سے عربی دنیا تک پہنچی تھی۔ اس نوعیت کے علمی روابط تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ احمد شہر یار کی اردو اور فارسی، دونوں زبانوں پر دسترس ہے، انھوں نے بڑی مشاقی کے ساتھ دونوں ملکوں کی اہم کتابوں کو ایک دوسرے کی زبان میں منتقل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انکی تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔ حال ہی میں انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ”میرا بھائی“ کا اردو سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ احمد شہریار کی ترجمہ شدہ کتابوں کا تہران یونیورسٹی کا شعبہ اردو بھی معترف ہے۔ احمد کے شعر ی مجموعے ”اقلیم“، ”تماشا“ (اردو) اور ”پیرہن گم کردہ ایم“ (فارسی) ہمارے شعری سرمائے کا اہم حصہ ہیں۔ ایسے لوگ دوسرے ملکوں میں ہمارے وطن پاکستان کے حقیقی سفیر ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ ہمارے سفارت خانوں کے اہل کاروں کی طرح مہنگے بھی نہیں پڑتے۔ چند روز پہلے اوکاڑا میں مقیم معروف شاعر، یار طرحدار، کاشف مجید نے بتایا کہ احمد شہریار ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
گورنمنٹ کالج اوکاڑا کے شعبہ اردو کے زیرتحت انکے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آپ کو مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت ہے۔ یہ دعوت ملکِ بلقیس سے ہد ہد کی زبانی آنے والے کسی مڑدہ جانفزا سے کم نہ تھی۔ بس ”کچے دھاگے سے بندھے چلے آئے“ والا معاملہ تھا۔ میں اور نورِ نظر مہر علی اوکاڑا میں کاشف مجید کے گھر پہنچے، یہ مکان انھیں سرکار نے الاٹ کیا ہے، میں نے اس سے پہلے کسی سرکاری گھر کو اس قدر آراستہ نہیں دیکھا۔ یہ کاشف مجید کی اہلیہ اور ہماری بہن پروفیسر یاسمین کاشف کے ذوقِ جمال کا نتیجہ ہے۔ ورنہ کاشف میاں تو صرف ایک شاعر ہیں۔ اوکاڑا اردو کے بڑے شاعر ظفراقبال کا شہر ہے، اسکی علمی بنیادوں میں اقبال صلاح الدین اور ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی محنت شامل ہے، اس لیے یہاں کا ماحول ایک خاص قسم کی خوشبو میں رچا بسا ہوا ہے۔ تقریب کی صدارت بزرگ شاعر پروفیسر رانا غلام محی الدین نے کی۔ مہمانان اعزاز معروف شعرا مسعود احمد اور رضااللہ حیدر صاحبان تھے۔ پروفیسر سخنور نجمی، پروفیسر محمود احمد، ڈاکٹر حسن رضا اقبالی، کاشف مجید اور راقم نے احمد شہر یار کی شخصیت اور شاعری پر گفتگو کی۔ تقریب کے آخر میں احمد شہریار سے جی کھول کر ان کا کلام سنا گیا۔ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی شاعر، ادیب، مصور، خطاط، فن کار، مہندس اور ماہرین ِ طب وہاں ہمارے ملک کا چہرہ ہیں، احمد شہریار بھی ان میں سے ایک ہیں۔
بشکریہ: نوائے وقت