تحریر: علی سردار سراج
پہاڑ، نہریں ، اور راستوں کی اہمیت کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات میں ملتا ہے ۔
بعض آیات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بطور خاص گلگت بلتستان کی سرزمین کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہیں ۔
بطور مثال سورہ نحل کی اس آیت کو دیکھیں ۔
وَاَلۡقٰى فِىۡ الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَاَنۡهٰرًا وَّسُبُلاً لَّعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَۙ
اور اسی نے زمین میں بھاری پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو( النَّحْل 15)
یہ راستے اس لیے ہیں کہ ہر مسافر ادھر ادھر بھٹکے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے ۔
اگرچہ ہدایت ایک عام مفہوم ہے لیکن سیاق آیت کو دیکھتے ہوئے یوں معنی کیا گیا ہے ۔
▪️راستے اور راستوں کی امنیت اللہ تعالی کی اہم نعمتوں میں سے ہے۔
کہ جن کے وساطت سے جہاں انسانوں کا باہمی ارتباط قائم ہو جاتا ہے وہاں زرق و روزی کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
لیکن نعمتوں کی بقا کے لیے شکران نعمت ضروری ہے ۔ ورنہ یہی نعمت نقمت میں بدل جاتی ہے ۔
قرآن کریم حیرت انگیز طور پر قوم سبا کی ناز و نعمتوں کے بعد نا شکری کے ذکر میں فرماتا ہے کہ انہوں نے یہ مطالبہ کیا ۔
رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا
ہمارے رب! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے ۔
یہ ان کا زبان حال ہے ۔ کہ وہ اس نعمت کا شکر بجا نہ لا کر اپنے عمل سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ راستے تبدیل ہو جائیں ۔
وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ: ان لوگوں نے کفران نعمت کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور ان نعمتوں سے اپنے آپ کو محروم کر لیا۔
تو اللہ تعالی نے بھی اس ظلم کی وجہ سے انہیں آئندہ آنے والوں کی عبرت کے لیے مثال بنا دیا ۔
فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ: پس ہم نے انہیں افسانہ بنا دیا کہ آنے والی نسلیں ان کی افسوسناک داستانیں بیان کیا کریں۔ یہاں تک کہ ان کی تباہی ایک ضرب المثل بن گئی۔ کہتے ہیں: تفرقوا ایادی سبا۔ وہ قوم سبا کی نعمتوں کی طرح پراگندہ ہو گئے۔
▪️شاہراہ قراقرم، جس کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے ۔
اس شاہراہ نے جہاں چین اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے بیچ گرے ہوئے علاقوں کو باقی دنیا سے ملایا وہاں رزق و روزی کے بے شمار مواقعے فراہم کیا ۔ بالخصوص وہ علاقے جہاں سے یہ شاہراہ گزرتی ہے ۔
اس نعمت کی قدر دانی ضروری ہے اور راہ کی قدر دانی یہ ہے کہ اس کی حفاظت کے ساتھ اس کی امنیت کو تامین کیا جائے اور مسافروں کے لئے سفر کے دوران سہولیات فراہم کیا جائے ۔
لیکن متاسفانہ حکومت پاکستان نہ فقط اس شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافروں کو مناسب سہولیات دینے سے قاصر رہی ہے بلکہ مسافروں کی جانوں کی حفاظت سے بھی قاصر رہی ہے ۔
جس میں یا حکومتی اداروں کی نا اہلی ہے یا بد نیتی ۔
پچھلے کئی سالوں سے چلاس سے کوہستان میں کئی لوگوں کو کھلے عام بسوں سے اتار کر شہید کیا گیا نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹس سے مس ہوئے اور نہ اس علاقے کے بڑوں بالخصوص علماء نے احساس شرمندگی کی۔
جس کی وجہ سے شر پسند عناصر کو مزید تقویت ملی اور آج ان علاقوں کے نام کے ساتھ دہشت گردی کا تبادر ہوتا ہے ۔
اور یہ سلسلہ بہت دیر تک نہیں چل سکتا ہے ۔
یقینا گلگت بلتستان میں بسنے والے لاکھوں لوگ اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح اپنے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کریں گے ۔
پھر یہ علاقے اور یہاں کے باسی بھی دوسروں کی عبرت کے لیے مثال بن جائیں گے ۔
لہذا ہم دیامر کے لوگوں سے وہی سوال پوچھتے ہیں جو لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے پوچھا تھا ۔
أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟
کیا تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہیں ہے؟
جو ان دہشتگردوں کی راہ میں رکاوٹ بنے اور دوسروں کی جان بچائے اور تمہاری نسلوں کا مستقبل بچائے ۔