تحریر: عادل فراز
اٹھارہ مئی 2024ء کو ہم مشہد مقدس میں تھے۔ مولانا مناظر نقوی جو سرزمین مشہد پر ہندوستانی تہذیب کے پرچم بردار ہیں، اُس شب اپنے موسسہ میں ہمارے میزبان تھے۔ وہیں طے پایا کہ کل حرم امام رضاؑ کے شعبہ زائرین بین الاقوامی کے مسئول حجۃ الاسلام آقای ذوالفقاری سے ملاقات کی جائے گی۔ کچھ خاص مہمان بھی آنے والے تھے، جن میں برداران اہل سنت بھی شامل تھے۔ اگلے دن ہم لوگ مناظر بھائی کے ساتھ آقای ذوالفقاری کی خدمت میں پہنچ گئے۔ وہ بے انتہاء محبت سے پیش آئے اور کئی تحائف بھی دیئے۔ ابھی ان کے ساتھ گفتگو ہو رہی تھی کہ ان کے موبائل پر کوئی پیغام موصول ہوا، یا کسی خبر نے ان کے موبائل پر دستک دی۔ اچانک ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور وہ ہم سے مخاطب ہوئے: “دعا کیجیے، آقای رئیسی کا ہیلی کاپٹر رڈار سے غائب ہوگیا ہے۔ تلاش جاری ہے مگر ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔”
ہم لوگوں نے ان کے ساتھ رب کریم کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے۔ اس کے بعد کچھ رسمی بات چیت کرکے ہم لوگ اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔ کمرے میں پہنچ کر خبریں تلاش کیں تو معلوم ہوا کہ ہر نیوز ایجنسی اور چینل پر آیت اللہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے غائب ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ بعض نیوز ایجنسیاں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہی تھیں۔ ہمارا ذہن بھی ان خدشات سے عاری نہیں تھا، کیونکہ آقای رئیسی امت مسلمہ کے مسائل کو بہت سنجیدگی سے اٹھا رہے تھے۔ خاص طور پر جس طرح انہوں نے مسئلۂ فلسطین پر ایران کے موقف کا اعادہ کیا تھا، اس کی نظیر گذشتہ کئی ادوار میں نہیں ملتی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جس طرح قرآن مجید کی حرمت کا تحفظ کرتے ہوئے عالمی اسکتبار کو جرأتمندانہ پیغام دیا تھا، وہ بھی ایک مثالی جذبہ تھا، جو دنیا کے دوسرے مسلم حکمرانوں میں نظر نہیں آیا۔ اس بنا پر ہمارے خدشات مزید گہرے ہونے لگے۔
جس دن یہ حادثہ رونما ہوا، مشہد میں امام رضاؑ کی ولادت کا جشن منایا جا رہا تھا۔ایران میں یہ دن بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مشہد کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ خاص طور پر حرم امام رضا کی رونقیں مزید دوبالا ہوگئی تھیں۔ ہم لوگ نماز مغرب کے لئے حرم میں داخل ہوئے تو “أمن يجيب المضطر إذا دعاه ويكشف السوء” کی آوازیں مائک پر بلند ہو رہی تھیں۔ پوری دنیا میں یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے کریش کر گیا ہے، لیکن ابھی تک انہیں تلاش نہیں کیا جاسکا۔ دعائوں کا سلسلہ جاری تھا، مگر خدشات بھی لاحق تھے۔ اس کے باوجود مشہد مقدس اور خاص طور پر حرم امام رضاؑ میں گیارہ ذیقعد کی خوشیوں میں کوئی کمی نہیں تھی۔ امام رضاؑ کی ولادت کے موقع پر ہرطرف جشن کا ماحول تھا۔ سبیلیں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے۔
حرم کی طرف سے مختلف صحنوں میں چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گویا یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ قوم ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوئی ہے۔ ان کے لئے سب سے پہلے امامؑ کی ولادت کا جشن تھا، جس میں یہ قوم سب کچھ بھلا کر ولولے کے ساتھ شریک ہو رہی تھی۔ پھر گیارہ ذیقعد مطابق 20 مئی کو دیر رات تک تمام خدشات یقین میں بدل گئے۔ ایران نے صدر رئیسی، وزیر خارجہ آقای امیر عبداللہیان، حجۃ الاسلام آقای محمد علی آل ہاشم اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبروں کی تصدیق کر دی۔ پورا ایران غم کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ہر طرف “شہدائے خدمت” اور “رئیس جمہور ما” کے بینر اور پوسٹر نظر آنے لگے۔ ان کی شہادت پر ہر کوئی آنسو بہا رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ بھی جو ان کے شدید ناقد تھے، کیونکہ انہوں نے اپنی مدت کار میں ایران کو سربلندی عطا کی تھی۔ عوام کی بہبود کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا۔ اب لوگوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ انہوں نے کتنی گراں قدر نعمت کو کھو دیا ہے۔
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ کا تعزیتی پیغام جاری ہوا تو لوگ بلک بلک کر رونے لگے۔ ہم نے ایران میں بیک وقت امام رضا ؑ کی ولادت کا جشن بھی دیکھا اور شہدائے خدمت کا غم بھی۔ یقیناً یہ ملت ہر صورت حال سے نمٹنے کا ہنر جانتی ہے۔اس کو شکست دینا آسان نہیں۔ جب کوئی قوم اپنی خوشی اور غم کو محمدؐ و آل محمدؑ سے منسوب کر دیتی ہے تو وہ حالات سے نبرد آزمائی میں ہرگز مات نہیں کھا سکتی۔ آیت اللہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بارے میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا۔لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں ان کی حفاظت میں غفلت برتی گئی تھی۔ ان کی لوکیشن کو ٹریس کرنے میں بھی دیر ہوئی۔ جائے حادثہ پر پہنچنے میں بھی کافی وقت لگا۔ ان کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ جو دوسرا ہیلی کاپٹر تھا، وہ ان کی حفاظت سے بے خبر کیسے منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ ایسے ڈھیروں سوالات ہیں، جن کے جواب نہیں مل سکے۔
ایرانی حکومت نے اس حادثے کی تحقیقات بھی کروائی۔ رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ خراب موسم کی وجہ سے ان کا ہیلی کاپٹر کریش ہوا۔ اس کے بعد کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا۔ لیکن جس طرح سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی شہادت واقع ہوئی اور ان کی شہادت سے پہلے جس طرح لبنان میں پیجر اٹیک ہوئے، اس سے ہیلی کاپٹر کریش کے متعلق موجود خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر، شہید رئیسی ملت مسلمہ کا افتخار تھے۔ انہوں نے کم عرصے میں اپنی صلاحیتوں اور بے نظیر قیادت کا لوہا منوایا، جس کا اعتراف دشمن نے بھی کیا ہے۔ آیت اللہ رئیسی کی شخصیت عالم اسلام کے قائد کی حیثیت سے عالمی سطح پر متجلی ہو رہی تھی۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مسائل پر پوری دنیا کی توجہ مبذول کروائی تھی۔ ہر کوئی ان میں رہبریت کے عناصر تلاش کر رہا تھا۔ وہ ایک بے باک، دین دار، مخلص اور عالم اسلام کے بے لوث خادم تھے۔ ان پر “شہید خدمت” کا خطاب پھبتا بھی ہے اور جچتا بھی ہے۔ ان کی عبقری شخصیت کو ہم کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ اللہ ان تمام شہدائے خدمت کے درجات بلند فرمائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا