تحریر: عبدالشکور نورزئی
کچھ عرصہ قلم سے دوری اختیار کی لیکن حالات اور واقعات نے لکھنے پر مجبور کردیا ، مجھ سے بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی آہٹ برداشت نہیں ہوتی ۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے بلوچستان کے بچوں عورتوں اور بزرگوں کی آہٹیں سنائی اور دیکھائی دیتا ہے کبھی آفت کبھی سیلاب کبھی کرونا اور کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کرونا کے کفر کی شدت سے نکلے ہی تھے کہ بے درک ہٹ دھرم بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچادی کہ حیات انسان تاروپور کو درہم برہم کر ڈالنے والی قیامت ٹوٹ پڑی ،پل تباہ ہوکر ،ڈیم ریزہ ریزہ ہوکر چیف انجینئروں اور ٹھیکداروں کے منہ پر مار دیئے گئے ، سڑکیں نیم برہنہ گھروں محلوں اور دیہاتوں کو نیستی نیست گاری کا نمونہ بنا دیا گیا کیچھڑ میں لت پت اور شناخت سے محروم انسانی لاشیں ،مویشیوں کی لاشیں سر سبز درخت ایک ساتھ بھپرے نہروں اور دریاؤں میں تیرتے جاتے تھے ۔انہیں گیلی آنکھوں والی بادلوں کے پیچھے منہ چھپائے شر مسار سورج کی طویل غیر حاضری کے نتیجے میں کیچڑ شدہ زمین کے اندر دفن کردیا۔ اور یہی فرق ہے پچھلی اموات میں اور اس سیلابی انبوہی مرگ میں عام طور پر کان اپنی کھیت میں کیچڑ کے اندر جیتا ہے ،کیچڑ کے اندر مرتا ہے مگر دفن خشک قبرستان میں ہوتا ہے۔ سیلاب میں البتہ وہ جیا بھی کیچڑ میں ، مرا بھی کیچڑ میں اور دفن بھی ہوا کیچڑ میں ۔ساری زمین آسمان کی کارستانوں آب آب ہوچکی تھی ۔
آفت اور سیلاب سے نقصانات صرف اور صرف بلوچستان تک محدود رہتا ہے باقی دنیا میں بلوچستان سے کئی گنا زیادہ بارش ہوتی ہے لیکن وہاں قہر الہی نہیں ہوتا ہے حالانکہ وہاں پر مسلمان بہت کم آباد ہے اگر عذاب الہی آتا ہے توپہلانمبر پر کافر ہوتا ہے مسلمان نہیں ۔ ہر سال بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں حاجی صاحب حج کی سعادت بھی حاصل کرلیتے ہیں مگر پھر بھی بلوچستان ۔ میں آفت اور سیلاب کا آنا سمج سے بالاتر ہے ۔مگر بلوچستان سے خدا کو جو مال چاہی تھا وہ خدا نے ان سے لے لیا ۔ اس بے بس وبے کس وبے اسرا ، مگر متحمل مزاج کسان آبادی کے نام نہاد گھر ، اگر ہیں بچے بھی ہیں تو ان کی چھتوں دیواروں کو اندر سے ٹی بی ہوگئی ہے ۔ اس قدر لاغر کہ سانس لینے سے ڈھے جانے کو تیار۔ فصلیں کلی گاؤں بستیاں تباہ وبرباد ہوگئیں لیکن ہر بلا سے بڑی بلا اور ہر آفت سے بڑی آفت بھوک میں مبتلا کسان جس روزی رساں بارش کیلئے زندگی بھر آسمان کو تکتے رہتے تھے ، آج اس نے ننھے بچے اسی آسمان ،بادل اور بارش کو موٹی موٹی بددعائیں دیتے ہیں۔ انسان نے اس بار مہر کو قہر بنتے دیکھا ، امن ،امنگ، موسیقی، محبت ، احساس ،فصل ،ملک ،ملکیت ،ارمان ،خواہش، سرکار ، سردار، میر پیر، فقیر ،انسانیت بھائی بندی ،ایثار علم ،حلم، عقیدہ، وفا، رحم ،ترس، احسان، بہشت سب ختم۔ ‘‘حکومت ماں باپ ہوتی ہے‘‘ یا ‘‘ریاست ماں جیسی ہوتی ہے’’ لیکن ماں سوتیلی جیسا سلوک ۔ انسانوں کایہ حالات دیکھ کر حکمرانوں کی ماتےجیسے منحوس چپٹی جوتی بن کر انسانیت پیشانی پہ شڑاپ شراپ لگ رہے تھے ۔ زندوں کی حالت دیکھ کر لوگ میتوں پر رونا بھول چکے تھے ۔
مگر حکومتی وزیروں نے سکھ کا سانس لیا۔
ننگے بدن ،بھوکے پیٹ اور خالی جیب سرمایہ داروں کے لئے ٹرنکو لائزر ہوتے ہیں۔انسانوں اور حیوانوں کی تیرتی لاشوں ، گری ہوئی چھتوں دیواروں ، اجڑے ہوئے کھیتوں کھلیانوں اور برباد بستیوں کے پس منظر میں سے آتی ہیں ، آہیں اور لوریاں ہیں ۔ ایک لیڈر نے تو پبلک میں کہا تھا کہ سیلابی علاقہ میں کشتی چلانا وینس شہر میں کشتی رانی جیسا لطف دیتا ہے۔ یہ بے حس وبے ضمیر لوگ، بچوں کے بلکنے کا لطیف لیتے ہیں ۔ یہ ماتمی سنسان سیاہ روز وشب ان کے لئے راحت دولت وتمکنت لانے والے تھے ۔اس لیے کہ اب تو وہ خیمے بانٹیں گے ،راشن تقسیم ہونگے، تصویریں کھچوائیں گے، ایدھی ،سیلانی وغیرہ وغیرہ کو چندے دیںگے۔ یہ این جی اوز کیا ہے، یہ بپھرے عوام اور بورژ والیڈروں کے بیچ شاک ابزاربر ہیں ، این جی اوز استحصال زدہ عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کرتی ہیں، اور ناروانظٓام کے لئے کچھ مزید عرصہ چلنے کی گنجائش پیدا کرتی ہیں،
این جی اوز خود کو فلاحی تنظیمیں کہتی ہیں اور سیلاب اور آفات کی تباہیوں کا باعث بننے والے انہی ٹھیکیداروں ،کمیشن خور انجینئروں اور خورد برد کے ماہر اور بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے والے افسروں کو ‘‘مخیر حضرات ’’ کہتی ہیں۔شیطان پہ مقدس چادر چڑھاتی ہیں این جی اوز سرمایہ داری نظٓم کا سافٹ فیس ہیں ۔
فلاحی اداروں پر مرغی کے دو انڈوں کا بھروسہ نہیں ۔اربوں کھربوں روپے کی تقسیم پر ۔گوشت کا چوکیدار بلی اور چاول دیگیں بانٹیں سڑکوں پر مگر کسان کی فصلیں اور کھیت تو سڑکوں پر نہیں ہیں وہاں امداد کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے ہیلی کاپٹر صدر وزیر اعظم وزیراعلیٰ افسروں اور بغیر وزارت والے عمران خان کی گھوڑیاں ہیں ۔خیر امداد انکو ملا جن کا ایک پیسے کا نقصان بھی نہیں ہوا تھا ۔ بربادی والے مزید بربادی کی راہ پر گامزن ہوگئے ۔
دائمی سلیکٹڈ وزیروں نے بلوچی ٹوپی پہن کر شیو بڑا کر اور پرانے کپڑے پہن کر سیلابی علاقوں اور خیمہ بستوں کے دورے کیے ۔فوٹو سیشن بپا کیے۔ لیکن عوام کی قسمت پھوٹی لیڈر کی لیڈری پکی، اگلے الیکشنوں میں پھر سلیکٹڈ ہونا یقنی۔
آفت کے دوران عوام کی نفرت ،شعور ، یاچھوٹے موٹے احتجاج کو کامیابی کے ساتھ ہنڈل کیا جاتا ہے ۔اس لیئے قدرتی آفتیں کوئی دیر پاشعور نہیں لاتیں ۔
بلوچستان واپس زیرو پر چلا گیا ہے۔ ہمارے پیداواری ذرائع ملیامیٹ ہوگئے ہیں ،ہمارا افراسٹرکچر برباد ہوگیا ہے ۔ چیونٹی کی رفتار سے ہمارے آلات پیداوار میں جو نام نہاد ترقی آئی تھی وہ قتل ہوگئی ہے ۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں واپس آگئے ہیں۔ واپسی پیر تعویز اور گندے نامی نقلی سہارے مزید مظبوط ہوجائیں گے ، پولیس اور لیویز مزید کرخت ہوجائے گی۔
ارے سیلاب تو دولت ہے، ناقص سڑکیں، پُل ،ڈیمز عمارتیں ڈھے جانے کا سارا الزام سیلاب نے اپنے سر لے لیا ، اب ان ٹھیکیداروں سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی جن کی چوری سے یہ انسانی المیہ رونما ہوا ۔ اب تو وہی ٹھیکیدار سڑکیں ،ڈیم سرکاری عمارتیں بنائیں گے مچ کمائیاں، تھیکیداروں کے مزے کمیشن خور افسروں اداروں کے وارے نارے ہوں گے ۔اور خیراتی اداروں کی واڑھیاں مرغن ہوگی۔
کیونکہ انکے پر کسی نے بات تک نہیں کی بلکہ سب کو کہا گیا کہ سیلاب عذاب الہی ہے جو کچھ ہوا ان کے ذمہ دار نعوذباللہ صرف اور صرف اللہ ہے لوگوں سے کہا گیا کہ قرآن پاک نکالوں اور اللہ پاک سے بارش رکنے کی دعائیں مانگو تا کہ یہ بارش اللہ تعالیٰ نے برسائے ہیں تاکہ اللّٰہ پاک روک دیں اب عوام سے کوئی بھی یہ نہیں کہتاہے کہ ہمارے ہاں آب نکاسی کا کوئی انتظٓام نہیں ہے۔ اب آپ لوگ یا حساب کتاب وزیروں یا منتخب نمائندوں سے کریں ۔جنہوں نے غیر معیاری ڈیم سڑکیں،اور پل بنائیں ہیں لیکن حساب کون کس سے مانگیں ۔
عوامی ٹیکسوں پہ قائم ریاست میں ہیلی کاپٹر ، کشتیاں ،نیوی کے تیراک اور اس طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ فوج ہوتی ہے ۔ جو ہمارے پاس نہیں ہے اگر ہیں بھی تب تک وکام شروع نہیں کرتے جب تک انکا جیب میں کچھ نہ جائیں ۔ اگر ہم سب اپنا کام ایمانداری سے کریں تو ہمیں نہ کسی کرپٹ سے خیرات کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی باہرملک سے مدد لینے کی انتظار لیکن ہمارے ہاں ایمانداری کی بھی سزا مقرر کی ہے اگر کسی نے ایمانداری دیکھائی وہ اپنے سزا کا انتظار کریں ۔ بلوچستان میں نام نہاد وزیراعلی اور انکے مشیر خاص ایک 17گریڈ آفیسر سر بنگو ہیں۔ ہمیں گزرے ہوئے دور سے سبق لینا چاہیے، اب پھر سے بارشیں برسنا ہونا شروع ہوئیں گے لیکن پہلے سے جو پانی کھڑا ہے انہیں اب تک نکالا نہیں۔ بس آہ بلوچستان آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔