نومبر 24, 2024

آٹھویں شکست، لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تحریر: خورشید عالم

بھارتی کپتان روہت شرما کا احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ کے سب سے بڑے اور اہم میچ میں فتح کے بعد تماشائیوں کی جانب رخ کرکے انگلیوں سے 8 کا ہندسہ بنانا اور پھر ہنسنا ، یقیناً بطور پاکستانی مداح دل چیر دینے کے لیے کافی ہے۔

جب میدان میں آپ کے چوکے اور وکٹ لینے پر تالیاں بجانے والا کوئی نہ ہو ، تو پھر ہارنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ، ایسے میچوں میں کشتیاں جلا کر ہی میدان میں اترا جاتا ہے، مگر احمد آباد میں بھارت اور پاکستان کے اپروچ میں واضح فرق نظر آیا۔ ایسی پچ جہاں تین سو سے زائد رنز کی پیشگوئی کی جارہی تھی وہاں پاکستان کا صرف 191 رنز پر ڈھیر ہوجانا، بیٹرز کے ڈر اور خوف کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آیا۔

دوسری طرف بھارتی کپتان روہت شرما کا شبمن گل کی جلد وکٹ گرجانے کے باوجود  پاکستانی بولرز پر دھاوا بول دینا، ان کی حکمت عملی اور ارادوں کو ظاہر کررہا تھا ۔

اگرچہ بابر اعظم اور محمد رضوان نے پاکستانی اننگز میں سب سے بڑی 82 رنز کی شراکت بنائی  مگر کلدیپ یادیو نے میچ کے بعد اپنے انٹرویو میں پاکستانی حکمت عملی کا پوسٹ مارٹم ہی کردیا۔

کلدیپ یادیو کا کہنا تھا کہ جس طرح بابر اعظم اور محمد رضوان  ان کے خلاف بیٹنگ کررہے تھے ، اس سے بیٹرز کے ارادوں کا اندازہ ہورہا تھا ، محمد رضوان انہیں سوئپ نہیں کررہے تھے اور بابر اعظم بھی ان کے خلاف چارج نہ کرسکے ، اسی لیے بولنگ لائن اپ نے ”وکٹ ٹو وکٹ“ بولنگ کی۔ کلدیپ یادیو بابر اعظم اور محمد رضوان کی وکٹ تو نہ لے سکے  مگر دونوں کو پھنسا کر کھلانے سے ڈریسنگ روم میں بیٹھے باقی ٹیم کا اعتماد  زمین بوس کرگئے۔

سری لنکا کے خلاف ریکارڈ ہدف حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے مڈل آرڈر کا جشن  بھارتی بولنگ نے جنازے میں تبدیل کردیا ۔ صرف 36 رنز پر 7 وکٹیں گر جانا  اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ بلاگ میں بھی یہ بات لکھی تھی کہ خدا کرے بابر اعظم کا نمبر ون رہنے کا بھرم نہ ٹوٹے  کیونکہ کمزور ٹیموں اور ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جن میں انہیں اپنے بہترین کھلاڑیوں کا ساتھ ہی حاصل نہ ہو  شکست دے کر نمبر ون پوزیشن حاصل کرنا کمال نہیں ، کمال اس اعزاز کو اپنے پاس برقرار رکھنا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے ایونٹس میں جب جب پاکستان ٹیم شکست کے بھنور میں پھنسی تو اس جلی ہوئی راکھ میں سے چنگاری کی طرح  سب کو اپنے شعلوں کے لپیٹے میں لے لیا۔

یقیناً جب آپ یہ بلاگ پڑھ رہے ہوں گے تو بھارت سے ورلڈ کپ میں شکست پر ٹیم میٹنگ ہوچکی ہوگی، مکی آرتھر نے کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہوگی ، بابر اعظم نے بھی مڈل آرڈر سے سوال کیے ہوں گے کہ کب تک وہ اور رضوان  بیٹنگ کا بوجھ اٹھائیں گے؟ شاہین آفریدی سے بھی ابتدائی اوورز میں ان کے وکٹیں لینے کے ہنر کے زائل ہونے پر پوچھ گچھ کی گئی ہوگی۔

شاداب خان اور محمد نواز سے بھی پوچھا گیا ہوگا کہ وہ کب انہیں کلدیپ یادیو ، مچل سینٹنر ، راشد خان اور کیشو مہاراج کی طرح بریک تھرو دلوائیں گے۔

اب پانچ مرتبہ کی چیمپئن آسٹریلیا سے پاکستان اگلا مقابلہ جمعے 20اکتوبر کو کرے گا۔ کپتان بابر اعظم اور ٹیم مینجمنٹ کے پاس اپنی غلطیاں دوبارہ نہ کرنے اور سوچنے کا موقع ہوگا  کیونکہ ورلڈ کپ ختم نہیں ہوا اور پاکستان کے لیے عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

بشکریہ جیو نیوز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 + 9 =