نومبر 24, 2024

آزاد کشمیرمیں جاری احتجاجی تحریک ۔۔؟

 

تحریر:عمر فاروق

آزادکشمیرمیں مہنگائی اوربجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف کئی ماہ سے جاری احتجاج کواب سول نافرمانی کی تحریک کانام دینے کی کوشش کی جارہی ہے ،احتجاجی کیمپوں سے شروع ہوئی یہ تحریک تصادم اورہنگاموں میں تبدیل کی جارہی ہے ،،بجلی کے بلوں کونذرآتش اورکئی مقامات پرانہیں دریابردکرنے کے مناظردیکھنے کومل رہے ہیں جبکہ چنداضلاع میں گزشتہ دوماہ سے بجلی کے بل جمع ہی نہیں کروائے گئے ۔

اس احتجاج کوچندشرپسندعناصرہائی جیک کرکے مذموم مقاصدحاصل کرنے کے درپے ہوگئے ہیں حالانکہ یہ احتجاج خالصتاعوامی مطالبات پرمشتمل تھا جس میں طوفان کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی کولگام ڈالنا،آزادکشمیرکے شہریوں کوسستے آٹے کی فراہمی یقینی بنانا ،بجلی بلو ں میں نارواٹیکسوں کوختم کرکے سستی اوررعایتی بجلی دینا ،اشرافیہ کی عیاشیوں اورمراعات کوختم کرکے عام آدمی کوریلیف دینا،ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ٹھیکوں میں کرپشن کاخاتمہ اورآزادکشمیرکے وسائل کو ترجیحی بنیادوں پرریاستی عوام پراستعمال کرنے جیسے مطالبات شامل تھے ۔

اس احتجاج کوبھرپورپذیرائی ملی ہے وکلاء برادری سمیت خواتین ،سول سوسائٹی تاجررہنمائوں اورہرطبقہ فکرنے اس میں اپناحصہ ڈالاہے البتہ سیاسی جماعتیں اوراپوزیشن اس احتجاج سے لاتعلق نظرآئی ہیں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگریہ عوامی مطالبات ہیں توعوام کے منتخب کردہ نمائندے اس احتجاج سے دوراور لاتعلق کیوں ہیں ؟ آزادکشمیرحکومت نے اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے مگرمظاہرین کے دل کووہ نہ لبھاسکے جس کے بعدراولاکوٹ ،باغ اورمظفرآبادمیں حکومت کی طرف سے طاقت کابھی استعمال کیاگیا پولیس نے احتجاجی کیمپ اکھاڑپھینکے احتجاج کرنے والے رہنمائوں کوگرفتاراورمقدمات قائم کیے ہیں ۔دوسری طرف مظاہرین نے ہڑتال کر کے حکومت کو جواب دیاہے۔

سوشل میڈیاپراس احتجاج کی آڑمیں بھرپورپروپیگنڈہ کیاگیا اورکیاجارہاہے جانے انجانے میں نوجوان ریاست اورپاکستان کے خلاف موادپھیلارہے ہیں بیرون ملک بیٹھے چندمفروراس کوہوادے رہے ہیں جھوٹی خبروں اور جعلی پوسٹوں کی خوب تشہیرکی جارہی ہے اس موقع پرانڈین لابی بھی متحرک ہے جواس احتجاج اوراس کے خلاف کریک ڈائون کواپنے حق میں استعمال کررہی ہے انڈین میڈیاکی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ پاکستان آزادی مانگنے والوں پرظلم وستم کررہاہے چندقوم پرستوں کی طرف سے ریاست مخالف نعروں کوانڈین میڈیابڑھاچڑھاکرپیش کررہاہے ۔

سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک میں تاجررہنماء ہراول دستے کاکرداراداکررہے ہیں حالانکہ آزادکشمیرمیں مہنگائی کے سب سے بڑے ذمے داریہی تاجراورٹرانسپورٹرزہیں تاجرزاورٹرانسپورٹرزکی ملی بھگت سے آزادکشمیرکے عوام کولوٹاجارہاہے یہ دس روپے کی چیزبڑی بے شرمی اورڈھٹائی سے پچاس روپے میں بیچ رہے ہوتے ہیں پھرایک چیزکاریٹ شہرمیں اورہے اوردیہات میں وہ ریٹ اورہے۔یہی تاجراورڈیلرسبسڈی والاآٹابلیک میں فروخت کرکے بحران پیداکرتے ہیں دوائیوں سے لے کردودھ تک ،چائے کی پتی سے لے کرکولڈڈرنک تک سب دونمبرمال ان کی دوکانوں پردستیاب ہوتاہے اکثرتاجرٹیکس نہیں دیتے، کنڈے اورچوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے والانہیں۔ نہ ہی چیک اینڈبیلنس کاکوئی نظام ہے ۔

ایک طرف اس احتجاجی تحریک کے رہنماء بجلی کے بل دینے کوتیارنہیں دوسری طرف وہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں سستاآٹافراہم کیاجائے حالانکہ وفاقی حکومت صرف آٹے پرسبسڈی نہیں دے رہی بلکہ بجلی پربھی سبسڈی دے رہی ہے ،ایک اندازے کے مطابق اس وقت آزاد کشمیر میں گندم کی سالانہ طلب 5 لاکھ ٹن ہے جبکہ حکومت سبسڈائزڈ نرخوں پر تین لاکھ ٹن گندم مہیا کر تی ہے اوراس حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ چندمل مالکان یہ گندم بلیک میں فروخت کردیتے ہیں جس کی وجہ سے سبسڈائزڈکوٹہ مکمل طورپرعوام تک نہیں پہنچ پاتاآزادکشمیرمیں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 3000 روپے ہے جبکہ حکومت کی جانب سے سبسڈائزڈ نرخ 1590 روپے ہیں۔اس طرح وفاقی حکومت آزادکشمیرکو فی من 3ہزارروپے سبسڈی دے رہی ہے ۔آٹے پریہ سبسڈی آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے علاوہ کسی اورصوبے کے عوام نہیں دی جاتی ۔

یہ بھی کہاجارہاہے کہ کشمیر کے وسائل پورا پاکستان استعمال کرتا ہے مگر بدلے میں کشمیر کو کچھ نہیں دیا جاتا۔اس حوالے سے حقائق دیکھے جائیں تووہ مختلف ہیں آزاد کشمیر کے دریائوں میں بہنے والے پانی کوپاکستان استعمال کرنے کی وجہ سے اس کی قیمت(واٹریوزچارجز)ادا کرتاہے۔ اس کی قیمت وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ تاہم رائج الوقت معاہدے کے تحت 42 پیسے فی کیوبک فٹ کے حساب سے آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت واٹریوزچارجزکی ادائیگی کررہی ہے۔اعدادوشمارکے مطابق تقریبا70سے 80کروڑروپے سالانہ اس مدمیں آزادحکومت کودیئے جاتے ہیں ۔

جہاں تک مہنگی بجلی کامعاملہ ہے تومنگلا ڈیم سے بننے والی بجلی کی رائیلٹی بھی سستی بجلی کی مدمیں گزشتہ 55 سالوں سے آزاد کشمیر وصول کررہاہے، بجلی کے ترسیلی نظام کے تحت تین کمپنیاں آزاد کشمیر کو بجلی فراہم کرہی ہیں،، بھمبر کے زیادہ ترحصے کو گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی ، میرپور، کوٹلی، پونچھ ڈویژن کو اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی اور مظفرآبادواس کے ملحقہ علاقوں کو پشاور الیکٹرک سپلائی بجلی فراہم کر رہی ہے۔ آزادکشمیر اس وقت ماہانہ بنیادوں پر15سے20 لاکھ یونٹ بجلی خرید رہا ہے جس کے لیے ان تین کمپنیوں کو25سے 33 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔یہ ادائیگی وفاقی حکومت کرتی ہے آزادکشمیرچندماہ پہلے تک صرف2.69 روپے فی یونٹ کے حساب سے رقم دیتاتھا جواب بڑھ کرچارسے پانچ روپے فی یونٹ ہوئی ہے ۔

آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کو سالانہ 40 سے 45 ارب روپے کی بجلی فراہم کرتی ہے اوراس کے بدلے میں آزادکشمیرحکومت محض 5 ارب روپے وفاق کودیتی ہے۔ آزادکشمیرمیں تین ارب روپے سے زائدکی بجلی کی بلنگ ہوتی ہے جبکہ حکومت صارفین سے ماہانہ ڈیڑھ سے پونے دوارب وصول کرپاتی ہے باقی ایک ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم منگلا ڈیم اور خیرپختونخواہ کے تربیلا ڈیم کی رائلٹی اور واٹر چارجز کی شرح کا تقابلی جائزہ لیں توسستی بجلی کی سہولت کے پی کے کو حاصل نہیں ہے اورواپڈاانہیں عام نرخوں پر ہی بجلی فروخت کر رہا ہے۔

آزادکشمیرکے عوام وفاق سے مایوس ضرورہیں مگرپاکستان کے مخالف نہیں ،اگرچہ نام نہادقوم پرستوں کی کوشش ہے کسی طرح انہیں پاکستان کے خلاف کھڑاکیاجائےمگر انہیں ابھی تک اپنے مذموم عزائم میں ناکامی ہوئی ہے ۔ گزشتہ چندسالوں میں آزادکشمیرکے عوام میں غم وغصہ میں اضافہ ہواہے اس کی کئی وجوہات ہیں خاص کرکے 2019میں جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی تواس وقت وفاق میں عمران نیازی کی حکومت اپنے کردارسے کشمیری عوام کومطمئن نہیں کرسکی ، پانچ منٹ کے احتجاج اورایک سڑک کانام کشمیرہائی وے سے تبدیل کرکے سری نگرہائے وے رکھ کرکشمیریوں کولالی پوپ دینے کی کوشش کی گئی جس سے کشمیری عوام میں بددلی پھیلی ۔اسی طرح جب عمران نیازی کواقتدارسے بے دخل کیاگیاتوانہوں نے آزادکشمیراوروفاق میں تنائوپیداکیا اوردونوں حکومتوں کوآمنے سامنے کھڑاکرکے ایک جنگ کاماحول بنایااس وقت پی ٹی آئی کے وزراء وفاق مخالف پریس کانفرنسوں سے ماحول بنایا۔پھرخاص کرکے 2018میں وفاق میں تبدیلی کے جس سونامی نے تباہی مچاہی تھی اس کے اثرات سے پاکستان کی طرح آزادکشمیربھی نہیں نکل سکا۔یہی وجہ ہے کہ بیس کیمپ کے عوام جوکبھی مقبوضہ کشمیرکی آزادی اورانڈین مظالم کے خلاف احتجاج کیاکرتے تھے کشمیرکے نوجوان تحریک آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیاکرتے تھے آج وہی غیرت منداوربہادرعوام دووقت کی روٹی اورمہنگائی کے خلاف احتجاج پرمجبورہیں ۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری

اس کے علاوہ آزادکشمیرکے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان سے ٹیکسز وصول کر کے اس رقم کو سرکاری ملازمین،اشرافیہ ،بیوروکریسی اور حکومتی ارکان کی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر غیر ترقیاتی اخراجات پر صرف کرتی ہے۔ عام شہری کا کوئی پر سانِ حال نہیں۔آزادکشمیرکے حکمرانوں نے ایساکوئی بڑامنصوبہ شروع نہیں کیاجس سے نوجوانوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔ سالانہ کروڑوں روپے ترقیاتی سکیموں کی مد میں خرچ کیے جاتے ہیں لیکن زمین پر اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آتے کیوں کہ وزاراء اورممبران اسمبلی اپنے رشتے داروں کوٹھیکے دلواتے ہیں جس کی وجہ سے تعمیروترقی نہ ہونے کے برابرہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انوارالحق کی کمزورحکومت فیصلے کرنے میں ہچکچارہی ہے انہیں کابینہ میں مسائل کاسامناہے اس لیے عوامی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ۔

ایسے میں فریقین کوخطے کے حالات ،بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے ،اپنے حقوق وکردارکے حوالے سے صبروتحمل کے ساتھ آگے بڑھناہوگاباہمی مذاکرات اور افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات حل کرناہوں گے اور حقوق لینے ودینے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیرکے حقیقی کردارکوبھی سامنے رکھناہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

nine + 18 =