تحریر: انصار عباسی
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پاکستان کے ٹاپ کاروباری افراد کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی۔ جو خبریں سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق پاکستان کے حالات خصوصاً معاشی بدحالی کی وجہ سے پریشان یہ کاروباری حضرات جب آرمی چیف سے ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات کرکے نکلے تو بڑی حد تک مطمئن تھے۔ میری بھی ان میں سے چند ایک سے بات ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ ملک کی معیشت کے بارے میں جو اُن کے شدید خدشات تھے، وہ کافی حد تک دور ہوئے اور اب اُنہیں امید ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ اسی میٹنگ کے دوران ان کاروباری حضرات نے اس تاسف کا اظہار بھی کیا کہ اس سنگین صورتحال کے باوجود ہمارے سیاست دان آپس میں مل بیٹھنے کے لئےتیار نہیں۔ اُنہوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ فوج اس بارے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتی؟ خبروں کے مطابق اس پرآرمی چیف نے کہا کہ وہ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے حق میں بالکل بھی نہیں۔ یہ بھی خبریں سامنے آئیں کہ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے صدر پاکستان سے یہ ضرور کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ملاقات کروائیں لیکن عمران خان اس کے لیے تیار نہ تھے بلکہ اُنہوں نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جنرل عاصم منیرکسی سیاستدان سے ملنے کے حق میں نہیں اور خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔یہ خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں تو تحریک انصاف کی طرف سے اس پر اعتراض بھی سامنے آ گیا۔ تحریک انصاف کے اہم رہنما اور ترجمان فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کاروباری حضرات کو فوجی قیادت سے نہیں ملنا چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہی سارے بزنس مین رجیم چینج میں بھی ملوث تھے اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سےبھی ملاقاتوں میں یہ کہتے تھے کہ لٹ گئے مر گئے برباد ہوگئے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بیڑاغرق ہی ان بزنس مینوں نےکیا ہے جن سے جنرل عاصم ملے ہیں۔ آرمی چیف اگر حکومت سے باہر کسی سیاستدان چاہے اُس کا تعلق حکمران اتحاد سے ہو یا اپوزیشن سے تو وہ قابل اعتراض بات ہو گی کیوںکہ ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس اصول پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے کہ وہ سیاست سے باہر رہیں لیکن معیشت اور معیشت سے جڑے مسائل جتنا سول حکومت کے لئے اہم ہیں اُتنا ہی وہ فوج کے لئے بھی اہم ہیں۔ معیشت کاتعلق پاکستان، عوام، حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری ریاست اور اس کی سیکورٹی سے ہے ۔ ہو سکتا ہے فواد چوہدری صاحب بھول رہے ہوں لیکن اُن کو یاد ہونا چاہئے کہ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو اُن کی حکومت کے دوران ہی پاکستان کی قومی سیکورٹی پالیسی بنائی گئی اور اس پالیسی کے تحت ہی نیشنل سیکورٹی کا سب سے بڑا Concern ملکی معیشت ہے۔ پاکستان کی معیشت اگر خراب ہو گی تو اس کا اثر پاکستان کی سیکورٹی پر پڑے گا۔ بحیثیت قوم اگر ہم معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑے نہیں ہوتے تو پاکستان غیروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو گا اور یہی کچھ آئی ایم ایف کے حوالے سے کہا جا رہا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری بھی کر دیں لیکن اب بھی نہیں معلوم کہ کب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ بڑے ممالک پاکستان کو آئی ایم ایف کے ذریعے بلیک میل کر رہے ہیں ۔ گویا معیشت کو ٹھیک کرنا حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف کو ہو سکتا ہے یہ یاد نہ ہو کہ اُن کی حکومت کے دوران اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دوست ممالک سے پاکستان کی امداد کے لئے رابطوں کا اہم ترین ذریعہ رہے۔ وہ بھی بزنس مینوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین افسروں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور مقصد یہ تھا کہ ملک میں کاروباری حالات بہتر ہوں، بیوروکریسی اور ملک کے کاروباری طبقے کو نیب کے خوف سے آزاد کیا جائے تاکہ سرکاری افسر بغیر خوف کے ملک کی بہتری اور معیشت کے استحکام کے لئے فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اُس وقت کے آرمی چیف کی ان میٹنگز کی اجازت عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم خود دی تھی۔گویا جو عمل تحریک انصاف کے دور میں درست تھا وہ آج کیسے غلط ہو گیا۔ اس پر تحریک انصاف کو ذرا غور کرنا چاہئے۔ (بشکریہ جنگ)