تحریر: عارف ارمان
ویسے عید لغت میں خوشی کا تہوار، خوشی، مسرت، جشن، سکھ اور بار بار لوٹ آنے کا دن، کے معنی میں آتا ہے جبکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کے مطابق مکتب تشیع میں چھاردہ معصومین سلام اللہ علیھم اجمعین کے ایامِ ولادت اور مسلمانوں کے درمیان عظیم دنوں کو عید کے نام سے جانے جاتے ہیں، جن میں ہفته وحدت 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول یوم ولادت پیغمبر اسلام، سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیه واله وسلم، عیدالفطر، عید الضحٰی شامل ہیں، لیکن کتب احادیث کے ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ دن جس میں انسان اپنے آپ کو حدود خداوندی میں مقید رکھ سکے اور گناہوں سے بچاسکے عید کہلاتا ہے۔
یہاں پہ ہمارا موضوع بحث سوسائٹی میں رائج وہی عید ہے جسے عید کے اصطلاحی معنی میں بیان کیا گیا ہے۔
بندہ حقیر جغرافیائی تقسیم بندی کے اعتبار سے پاکستان کا شہ رگ، سرزمین بے آئین گلگت بلتستان سے تعلق رکھتا ہوں، لہذا عید کے ایام میں اپنے علاقے کے چند ایک رسومات قلمبند کرکے تحریر کا اصلی مقصد قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔
قارئین محترم کو اس بات سے باخبر کرتا چلوں کہ جب بھی گلگت بلتستان کی بات ہوتی ہے تو پوری دنیا خصوصاً پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقیم گلگت بلتستان کو محض ایک ہی صوبہ جانتے ہیں (جیسے پنجان، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے ہیں) جبکہ گلگت اور بلتستان دو بڑے اور جدا جدا بلقوّہ صوبه ہیں جسے آپس کی جغرافیائی قربت، رسم و رواج کی باہمی یگانگت اور ستر سالوں سے سرزمین بے آئین کے لقب پانے کی وجہ سے اب دنیا گلگت اور بلتستان کو ایک ہی صوبه *جی بی* کے نام سے جانتی ہے۔
(ستم بالائے ستم ابھی تک خود جی بی بھی رسمی صوبه نہیں بنی)
خیر ہمارا موضوع بحث جغرافیائی تقسیم بندی اور جی بی شناسی نہیں ہے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ خود جی بی کے رسومات میں بھی علاقائی تقسیم بندی کی وجہ سے مختلف رواج پائے جاتے ہیں۔
قارئین محترم! جب جی بی میں عید الفطر کا دن آتا ہے تو گھر کے سارے افراد ملبوسِ نوع زیب تن کرتے ہیں، ہر گھر میں مختلف اور لذیذ کھانے پکانے جاتے ہیں، سارے رشتہ دار اور محلے والے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں اور گھر کے میزبان چائے، شربت، کاسٹر، چاٹ، بریانی، دودھ، خشک میوہ جات، پکے ہوئے انڈے ۔۔۔ ہر گھر اپنی استطاعت کے مطابق گوناگوں کھانوں سے مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمان بھی خوشیاں مناتے تبرکاً تھوڑا تھوڑا کھانے کا لطف لیتے خداحافظی کرکے اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جب مہمان میزبان کے گھر جاتا ہے تو اپنے بساط کے مطابق کچھ پیسے لیکر جاتا ہے اور گھر کے مالک کے ہاتھوں عید مبارک کہتے ہوئے تمھا دیتا ہے مزید برآں کہ عید کے اور بھی ایام میں بھی خوشیوں کے اور بھی رسومات ہوتے ہیں جسے بیان کرنا تحریر کے قلمبند کا اساسی مقصد کے مدنظر راقم الحروف فعلا ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
قارئین محترم! اس حقیقت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہے کہ خوشی اور عید کے ان پرمسرت موقعوں پر ہر معاشرے میں ایک طبقہ پھٹی ملبوس زیب تن، دلوں میں حسرتیں، لذیذ کھانوں کے تڑپ منہ میں پانی بھرا کبھی راستوں کے بیچ تو کبھی فقیرانہ ہاتھ پھیلائے کسی امیرذادے کے دمِ در تو کبھی بھوکا پیاسا کسی درخت کے زیر سایہ بیٹھا نظر آتا ہے۔ جسے ہم معاشرے کے اصطلاح میں *”غریب، مفلس یا بیچارے”* کے عنوان سے جانتے ہیں۔
راقم البیان اس موضوع پر آج سے تین سال پہلے *”آو ہم بھی عید مناتے ہیں”* کے عنوان ایک تحریر لکھی تھی جس کو محققین، منصف مزاج، حقیقت کے متلاشی اور درد دل رکھنے والوں کے درمیان بطور احسن مقبولیت ملی اور کچھ ناشناس و آشنا دوستوں نے کافی حوصلہ آفزائی کے بعد مزید اس موضوع پر بہتر انداز میں لکھنے کا تشویق دیا تھا لیکن وقت کی تنگی اور شخصی و اجتماعی مصروفیات کے باعث توفیق نہیں ہوئی۔ آج خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک بار پھر ایام عید میں غریبوں کے حقیقت پر مبنی حالات و احساسات کو قلم و قرطاس کی وساطت سے آپ قارئین کی گوش گزار کرنے کی توفیق ہوئی۔
قارئین محترم! جس طبقے کو آج سوسائٹی اور امیر گھرانے *”غریب و مفلس”* کے عنوان سے جانتے ہیں اسے صرف وہی طبقہ بطور احسن درک کرسکتا ہے جو یا اسی طبقهِ غربت سے تعلق رکھتا ہو یا ان سے قلبی محبت رکھتا ہوں اور یا وہ خالصتاً بشر الہی ہوں جیسے انبیاء، اولیاء اور شھداء، صالحین،صدیقین و عرفا ووو۔۔۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ
فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ۔
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ۔
(سورہ ماعون 1،2،3)
آج ہم معاشرے کے بدلتی حالات کے ہاتھوں مجبور اپنے عید کے رسومات بدلتے تو ہیں۔ لیکن ہم اپنی بدقسمتی سمجھے یا ہماری سلب توفیق، ان رسومات میں اپنے بچوں کو لباس نوع میں دیکھنا باعث فخر مانتے ہیں لیکن ہمسائے میں موجود اس مسکین اور غریب کیلئے دل میں ذرا برابر درد محسوس نہیں کرتا،
اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہوں تو مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور یتیموں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھرو
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم )
آج ہم عید کے موقع پر اپنے گھروں کو مختلف اور لذیذ کھانوں کے مطبخ تو بتا لیتے ہیں تاکہ اپنے مانند جہنم کے آتش آفزائی کرنے والے پیٹ پجاریوں کو آؤ بھگت اور خوش آمدید کہہ سکے لیکن محلے میں موجود ان تهی دستان کے گھر سال بھر ایک دفعہ گوشت نہ آنے کے فکر نہیں ہوتا،
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿سورہ محمد:۲۴﴾
آج ہم اپنے جیسے صاف لباس زیبِ تن اور معاشرے میں ٹھاٹھ بھاٹھ سے چلنے والوں کے شاہی گھروں میں عید کیلئے تو جاتے ہیں لیکن ان بےسہاروں کے گھر کوئی دق الباب کرنے والا نظر نہیں آتا۔
ضعیف اور کمزور لوگ ڈھونڈنے میں میری مدد کرو، کیوں کمزوروں اور ضعیفوں کی وجہ سے ہی تمھیں رزق دیا جاتا ہے اور تمھاری مدد کی جاتی ہے
(رسول اللہ ص)
قارئین محترم! قرآن کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ جو حالات آج ہمارے معاشرے میں رائج و راسخ ہیں خدا اس سے راضی نہیں ہے جس کے دلیل اختصار کے مدنظر ایک واقعے کی جانب اشارہ کرکے تحریر کو اختتام کا رخ دیتا ہوں۔
ایک روز حضرت یعقوب ع نے ایک دنبہ کی قربانی کی اور سارے غریبوں میں تقسیم کیا لیکن ایک غریب ہمسائے میں اس خیرات سے محروم رہا جس کے بارے میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم نہی تھا جبکہ وہ غریب روزے سے تھا اور گھر میں کچھ کھانے کو نہ ملنے کی وجہ سے بھوکا سویا۔ اسی اثنا جبرئیل آمین نازل ہوا اور فرمایا؛
اے یعقوب ع! خداوند متعال کی جانب سے بلا و آفت کیلئے آمادہ رہے، وجہ دریافت کرنے پر جبرئیل نے فرمایا تمھارا روزہ دار ہمسایہ بھوکا سویا لیکن تو نے ان تک خیرات نہیں پہنچائی، عرض کیا مگر جبرئیل مجھے علم نہیں تھا لذا میں بےقصور ہوں جبرئیل نے خداوند متعال کا پیغام پہنچاتے ہوئے فرمایا اگر تمھارے علم میں ہوتا اور ان تک خیرات نہیں پہنچتی تو خداوند تم سے نبوت چھین لیتا۔ یہی پیغام دے کر جبرئیل آمین چلا گیا اور اسی اثنا یوسف نبی کمرے میں داخل ہوا فرمایا۔
إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ﴿٤﴾قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴿٥﴾
(سورہ یوسف)
قارئین محترم! جب یعقوب کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کے ہمسائے میں کوئی غریب بھوکا سویا ہے تو خداوند ناراض ہوتا ہے اور بلا و آفت کیلئے آمادگی کا حکم دیتا ہے جبکہ مقام نبوت پہ فائز تھے تو ہم جیسے ناتوان اور ضعیفوں کا تو خداہی مالک ہے۔ یوسف ع کے خواب بیانی کے بعد یعقوب کے سب سے قریبی فرزند پر اپنے ہی بھائیوں سے ظلم شروع ہوا اور 40 سال تک یوسف ع یعقوب ع سے دور رہے، یوسف کو کنواں اور ذندان تک پہنچایا گیا اور یعقوب کی آنکھیں آبی ہوچکی تھیں۔
قارئین محترم! یہی ہمارے لئے بہت بڑا پیغام ہے بیشک ماہ مبارک رمضان تو گزر گیا لیکن ہمارے بغل میں غریبوں کا نہج اب بھی وہی ہے، ہمارے گھروں سے ابھی بھی لذیذ کھانوں کی بو مفلسوں کی سونگھ تک جارہی ہے اور خدا کی طرف بازگشت کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔
قُلۡ يَٰعِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
(سورہ زمر آیت 53)