جون 3, 2025

گلگت بلتستان میں تجارتی پالیسیوں کےخلاف احتجاج میں شدت، شاہراہ قراقرم تیسرے روز بھی بند

سیاسیات- گلگت بلتستان میں تاجروں کی قیادت میں اور سیاسی جماعتوں کی حمایت میں مرکز کی تجارتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج اتوار کو شدت اختیار کر گیا جب مظاہرین نے شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق مقامی درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک مقامی رہنما نے کہا کہ وفاقی حکومت، جس کی قیادت ان کی جماعت کر رہی ہے، مظاہرین کے مطالبات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

گلمت نگر میں ریونیو باڈی کے خلاف دھرنا اتوار کو تیسرے روز میں داخل ہو گیا۔

مظاہرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو چین سے ملانے والی سڑک ان کے مطالبات کی منظوری تک ٹریفک کے لیے بند رہے گی۔

احتجاج کے باعث ہزاروں مسافر اور سیاح سڑک کے دونوں طرف کئی گھنٹوں تک پھنسے رہے، اور دونوں طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔

’معاشی قتل‘

احتجاج کی کال گلگت بلتستان امپورٹرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، گلگت-نگر چیمبر آف کامرس اور نگر، ہنزہ اور گلگت کی چھوٹی تجارتی انجمنوں کے اتحاد پر مشتمل اتحاد پاک-چائنہ ٹریڈرز ایکشن کمیٹی نے دی تھی۔

اتوار کو دھرنے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

دریں اثنا ہنزہ، نگر، گلگت اور دیگر علاقوں سے تاجروں، علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان کے مختلف وفود نے احتجاج میں شمولیت اختیار کی۔ احتجاجی رہنماؤں عباس میر، عباد نگری، محمد اسمٰعیل اور دیگر نے کہا کہ ہزاروں مظاہرین گزشتہ تین روز سے سڑک پر بیٹھے ہیں لیکن حکام ان کی حقیقی شکایات سننے سے گریزاں ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گلگت بلتستان میں نجی شعبے میں ’کوئی صنعت‘ یا روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی سرگرمیاں مقامی لوگوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹرز، دکاندار، مزدور، کسٹم کلیئرنس ایجنٹ، ہوٹل مالکان، چھوٹے تاجر خنجراب پاس پر تجارت کی معطلی کی وجہ سے پچھلے سات ماہ سے بے روزگار ہیں۔

احتجاجی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مظاہرین گزشتہ سات ماہ سے سوست ڈرائی پورٹ پر پھنسے ہوئے 240 سے زائد کنسائنمنٹس کو یک وقتی ایمنسٹی اسکیم کے تحت کلیئر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ تاجر اربوں روپے کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ سوست ڈرائی پورٹ پر ایف بی آر اور کسٹمز کی پالیسیوں نے مقامی لوگوں کا ’معاشی قتل‘ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سرحدی پاس والے مقامی لوگوں کو چین سے اشیا درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور گلگت بلتستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے درمیان بارٹر ٹریڈ معطل کر دی گئی ہے۔

تاجروں نے 1985 کے سرحدی معاہدے کے تحت گلگت بلتستان اور سنکیانگ کے درمیان بارٹر تجارت کی سہولت فراہم کرنے پر زور دیا۔

اس کے علاوہ احتجاجی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سوست ڈرائی پورٹ پر پکڑی گئی جعلی اشیا کو گلگت بلتستان کے اندر تلف یا نیلام کیا جائے۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی حیثیت متنازع ہے، اس کے باوجود مقامی تاجر درآمدی سامان پر تمام ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔

ناکام مذاکرات

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نگر چیپٹر کے صدر جاوید حسین نے کہا کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

جاوید حسین، جو گلگت بلتستان اسمبلی کے سابق رکن بھی ہیں، نے کہا کہ ملک کی دیگر بندرگاہوں پر تجارتی پالیسیوں میں نرمی کی گئی ہے کیونکہ ’ان علاقوں کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگ تمام ٹیکسز ادا کر رہے ہیں، اس کے باوجود ایف بی آر ان کی کنسائنمنٹس کو کلیئر کرنے سے گریزاں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لگانا عالمی قانون ہے اور گلگت بلتستان کے عوام کو نہ تو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جاتی ہے اور نہ ہی ٹیکس سے چھوٹ۔

جاوید حسین نے کہا کہ ’حکومت پاکستان نے ہائی پروفائل دہشت گردوں تک کو عام معافی دے دی، اس لیے ٹیکس ادا کرنے کے بعد 250 کنسائنمنٹس کو کلیئر کرنے کے لیے ایک بار ایمنسٹی دینا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے‘۔

گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس لون، رکن اسمبلی ایوب وزیری اور دیگر حکام نے مظاہرین سے ملاقات کی اور انہیں احتجاج ختم کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

حکومتی وفود نے مظاہرین کو بتایا کہ ان کے مطالبات ’حقیقی‘ ہیں اور گلگت بلتستان کی حکومت ان کی حمایت کرتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسائل وفاقی حکومت سے متعلق ہیں اور وزیر اعلیٰ اسلام آباد کو پہلے ہی سفارشات بھیج چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی محمد علی قائد نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت گلگت بلتستان کے پاس مظاہرین کے مطالبات حل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر سول اور عسکری رہنماؤں سمیت اپیکس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں بات کی جائے گی۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eight − six =