مئی 9, 2024

پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد نہیں ہوا، دونوں جماعتوں کے درمیان دیوار نہیں پہاڑ حائل ہے۔ فضل الرحمان

سیاسیات-جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہےکہ پی ٹی آئی اور  جے یو آئی کے درمیان کوئی اتحاد نہیں ہوا، دونوں جماعتوں کے درمیان دیوار  نہیں پہاڑ حائل ہے، اس کو عبور کرنا آسان کام نہیں۔

نجی ٹی وی کے  پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا وفد پہلے بھی کئی بار آیا ہے، ہمیشہ عزت دی ہے، جے یو آئی کو ملک بھر کے الیکشن  پر تحفظات ہیں، خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے نتائج سے متعلق تحفظات ہیں، ہم نے ان کے سامنے بھی اچھے انداز میں اپنے تحفظات رکھے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ  پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان 12سال کا اختلاف رہا ہے، دونوں جماعتوں کے درمیان دیوار  نہیں پہاڑ حائل ہے، اس کو  عبور کرنا  آسان کام نہیں، ہم اپنی پوزیشن پر ہیں اور  پی ٹی آئی والے اپنی پوزیشن پر ہیں، پی ٹی آئی اور ہم نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی ہے، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان کوئی اتحاد نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ  پی ٹی آئی والوں کا یہاں آنا، ہم سے گفتگو کرنے سے ایک ماحول تشکیل ہوا ہے، ایسا ماحول جس میں مذاکرات ہوں، مسئلےکا حل نکلے، ہم سیاسی لوگ ہیں، سیاسی آدمی مذاکرات  اور  مسئلے کے حل کا انکار  نہیں کرتا۔

الیکشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ  جس الیکشن پر سوال اٹھیں اس کو کیسے تسلیم کریں؟ 2018 کا الیکشن اور اس بار کا الیکشن بھی متنازع ہوگیا ہے، جس طرح دھاندلی ہوئی،کونسی پارٹی کو جتوانا ہے،کس کو ہرانا ہے، رشوت دی گئی، اس  پر شکایات آئی ہیں، 2018 میں بھی تقریباً یہی مینڈیٹ تھا،اس وقت پیپلزپارٹی، ن لیگ کیوں کہہ  رہے تھے دھاندلی ہوئی، آج اسی مینڈیٹ کے ساتھ کہہ رہے ہیں الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں، پی ٹی آئی والوں کو بھی کہتا ہوں آپ کا بھی تقریباً وہی مینڈیٹ ہے، آج پی ٹی آئی والے دھاندلی کہہ  رہے ہیں، 2018 میں کہا الیکشن ٹھیک ہیں، 2018 ہو یا 2024، غلط ہمیشہ غلط ہوتا ہے، سندھ میں جی ڈی اے  نے بھی الیکشن سے متعلق مظاہرے کیے۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ  میں نے سوال اسٹیبلشمنٹ سے کیا ہے، سوال کیا ہےکہ اگر الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ تو دفن ہوگیا، اس کا مطلب یہ ہےکہ قوم نے ملک کے باغیوں کو ووٹ دیا ہے، ن لیگ، پیپلزپارٹی اور  اسٹیبلشمنٹ سےکہتا ہوں آپ کے یہاں تضادات ہیں، ان میں تضادات ہیں، نوعیت شاید مختلف ہو، لوگ الیکشن میں اسی چیز کو دیکھتے ہیں جو سامنے نظر آتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ  ہم نے اپنی جنرل کونسل سے سفارش کی ہےکہ ہم کیوں الیکشن میں اتر رہے ہیں؟ الیکشن میں پیسا بھی خرچ ہوتا ہے، توانائی بھی صرف ہو رہی ہیں، ہم نےسفارش کی ہےکہ پارلیمانی سیاست کیوں نہ چھوڑ دی جائے، ایسی ایکسر سائز کا کیا فائدہ؟ اگر ایوان نہیں تو میدان فیصلہ کریں گے، ہم نے پہاڑوں والا کام نہیں کرنا، ہم نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی تحریک کو  آگے بڑھانا ہے، ہم کس لیے یہ ساری ایکسرسائز کر رہے ہیں؟ ہمارے فیصلےکوئی اورکرتا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ  ڈیڑھ سال کی حکومت کی قیادت مسلم لیگ ن کر رہی تھی، ن لیگ کے بعد  ڈیڑھ سال کی حکومت میں اکثریت  پیپلزپارٹی کی تھی،  ہم  تو تیسرے، چوتھے نمبر پر تھے، اب سارا نزلہ ن لیگ پر گرنا چاہیے تھا، 10 سے 15 سیٹیں ملنی چاہیے تھیں، دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی جس کو سندھ میں شکست ہونی چاہیے تھی، پیپلزپارٹی تو  آگے بڑھ رہی ہے، بلوچستان کی طرف جا رہی ہے، صرف ہم پر ہی نزلہ گر رہا ہے، ہم نے ہی جرم کیا ہے۔

انہوں نےکہا کہ  ہم  پہلے بھی اتحاد کے بغیر جیتے ہیں، بلدیاتی الیکشن میں ہمارا کوئی اتحادی نہیں تھا، ہم نے بلدیاتی الیکشن پورے صوبے سے جیتا تھا، میں کبھی کسی کو اپنی طرف سے امیدوار  نہیں بناتا، ہمارے امیدواروں نے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے، جو  بھی ہمارے امیدوار  چاہتے ہیں الیکشن کمیشن کو بتا دیا ہے، ہم توسوچتے ہیں کہ الیکشن غلط ہوئے ہیں، لوگوں نے ہمیں ووٹ دیا ہے فی الحال پارلیمانی کردار نہیں چھوڑیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جس طرح الیکشن ہوا، نتیجہ آیا،ن لیگ کو پہلےہی کہہ چکا ہوں، ملک کے سیاسی، معاشی حالات ہیں، ڈیڑھ سال کا تجربہ ہے، چیلنج کو قبول کیا، ڈیڑھ سال کی حکومت میں ہم سب ن لیگ کے ساتھ تھے، اس کے باوجود  آپ کوئی نیک نامی حاصل نہیں کرسکے، مزید اپنی سیاست دفن نہ کریں، ن لیگ کو کہا ہےکہ اپوزیشن میں آئیں اور ساتھ بیٹھیں، حیرت اس بات پر ہےکہ میرے خلاف کیوں پریس کانفرنس کی، پیپلزپارٹی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ میرے خلاف پریس کانفرنس کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ  حکومت میں جانا مشکل ہے، ہمارا پارلیمانی کردار  جاری رہےگا، جب تک ہماری جنرل کونسل فیصلہ نہیں کرتی پارلیمانی کردار ادا کریں گے، ہر  روز صورتحال بدلتی ہے، جو  بھی صورتحال ہوگی اس کےحساب سے فیصلہ ہوگا، الیکشن عوام کا فیصلہ  ہوتا ہے  اور  وہ نظر نہیں آرہا، ہم نے تقریباً فیصلہ کرلیا ہےکہ حکومت میں نہیں جائیں گے، نواز شریف کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو وہ خود ڈٹ کر کہیں، بلوچستان میں کسی جماعت کو سپورٹ کرنے کا ابھی نہیں سوچا۔

انہوں نے مزید کہا کہ  ہم نے ڈٹ کر مطالبہ کیا ہےکہ چیف الیکشن کمیشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے، شفاف الیکشن کے بیان کو ہم نے مسترد کردیا ہے، سابق کمشنر  راولپنڈی کے پاس اگر  ایسی چیزیں ہیں تو سامنے لائیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fifteen − eleven =