سیاسیات-پاکستان نے جدید زراعت کے فروغ کے لیے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمنٹ سسٹم (لمز)، سینٹر آف ایکسیلنس قائم کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو راول پنڈی میں لمز کا افتتاح کیا جس کا مقصد فوڈ سکیورٹی، زرعی برآمدات بڑھانے سمیت ملک بھر میں زیر کاشت نہ ہونے والی لاکھوں ایکڑ اراضی اور کم پیداوار والی زمین کو تبدیل کرنا ہے۔
اس منصوبے کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پراجیکٹس میجر جنرل شاہد نذیر کریں گے۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ’اس انقلابی تحریک سے زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر اور کیڑے مکوڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جائے گا اور ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے مختلف زرعی منصوبوں کے لیے سعودی عرب 500 ملین ڈالرز فنڈ کے ساتھ جبکہ چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی تعاون کر رہے ہیں جس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ فن لینڈ بیچ، جنگلات اور حیاتیاتی نوعیت کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
میجر جنرل شاہد نذیر کے مطابق اس پروگرام سے ملازمتیں پیدا ہونے کے علاوہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جدید معلومات اور تجزیات کی بنا پر زرعی مشکلات، رکاوٹوں اور چیلنجز کی نشاندہی، مناسب حل تلاش کرنے اور شعوری فیصلے لینے میں آسانی ہو گی۔
اس کے علاوہ پروگرام کا مقاصد ضائع شدہ اور غیر کاشت شدہ زمین کی بحالی اور اس میں استحکام عمل لانا ہے۔
’پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت 23 فیصد جی ڈی پی کا اضافہ کرتی ہے جبکہ 37.4 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو نوکریاں فراہم کرتی ہے۔‘
میجر جنرل شاہد نذیر نے بتایا کہ ’مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آب پاشی نظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے ملک کے ہر خطے میں نہ صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت اور ضرورت کے مطابق ذخیرہ اندوزی بھی کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پہلے سبز انقلابی منصوبے کا آغاز 60 کی دہائی میں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نئی ٹیکنالوجی، نہری نظام، بیچ اور کیمیکل فرٹیلائزرز کو متعارف کروا کے اناج کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔
اس منصوبے کے بعد گندم کی پیداوار میں %79 اضافہ ہوا۔ پہلے پیداوار کی مقدار 3.7 ملین میٹرک ٹن تھی جو سبز انقلاب کے بعد 6.8 ملین میٹرک ٹن ہوگئی۔
جنرل شاہد نذیر نے بتایا کہ 60 کی دہائی سے پہلے اور سبز انقلاب کے بعد کی پیداوار سے اگر موازنہ کریں تو آج ہماری زرعی پیداوار اوسط درجے سے بھی کم ہے۔
’آج پاکستان میں گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ حالیہ پیداوار 26.4 ملین ٹن سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ کپاس کی پیداوار بھی گذشتہ 10 سال میں 40 فیصد تک گر چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ زرعی درآمدات کی قیمتوں کا 10 ارب تک پہنچ جانا ملکی معیشت کے لیے بھی بہت سے مسائل کا باعث ہے۔
’ان تمام مسائل اور دشواریوں کے باعث ایسا قدم اٹھانے کی شدید ضرورت ہے جس کی بدولت زراعت کے جدید طریقوں کے ذریعے ملکی زمین کو دوبارہ زرخیز بنایا جائے۔‘
میجر جنرل شاہد نذیر نے بتایا کہ اس حوالے سے پنجاب میں جدید کاشت کاری کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔
ماڈرن زراعت کے حالیہ منصوبے کون سے ہیں؟
ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پروجیکٹس کے مطابق اب تک جس زمین کی نشاندہی کر دی گئی ہے اس کی کل رقبہ 4.4 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 1.3 ملین ایکڑ پنجاب میں، 1.3 ملین ایکڑ سندھ، 1.1 ملین ایکڑ خیبرپختونخوا اور 0.7 ملین ایکڑ بلوچستان میں ہے’
‘دنیا بھر میں 80 فیصد ہائبرڈ بیجوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے پیداوار میں 30 سے 50 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹھ فیصد ہائبرڈ بیج استعمال ہو رہے ہیں۔
’پاکستان میں بیجوں کی ضرورت 1.7 ملین ٹن ہے جبکہ اس کی موجود مقدار صرف 0.77 ملین ٹن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کوششیں کی جا رہی ہیں کہ تھر، تھل اور کچھی کینال میں نہری منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا جائے۔
’پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضائع ہوتا ہے اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔
’اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسا کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی، سپرنکلر آب پاشی اور محور آبپاشی کا استعمال کیا جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، فصل، گندم، روئی، چاول، سورج مکھی، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوائی انرجی شامل ہیں۔‘
پاکستان کے پاس قابل کاشت زمین کتنی ہے؟
لمز کے مطابق پاکستان میں 11 بڑے حصے کاشت کے لیے ہیں۔ کل زمین 79.6 ہیکڑز ملین ہے جس میں سے 24 ملین ہیکٹرز زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں جبکہ 9.1 ملین ہیکٹرز زمین قابل کاشت بنجر زمین ہے جس پر کام کر کے اسے زرعی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔