سیاسیات- سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت کے آغاز کا واویلا کیا جا رہا ہے، پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت، حقیقت کیا ہے؟ دونوں ممالک میں براہ راست تعلقات ہیں، نہ تجارت ممکن، ماہرین۔ پاکستانی اشیاء ذاتی حیثیت میں گئیں، پاکستانی نژاد یہودی فشیل نے پہلی بار پاکستانی غذائی اشیاء اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی تاریخ میں اسرائیل کیلئے واحد پاسپورٹ عمران حکومت نے ہی فشیل بن خالد کو جاری کیا۔ نواز حکومت میں فشیل کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بی بی سی اور وائس آف امریکا نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹس دی ہیں اور امریکی یہودی کانگریس نے بھی اس حوالے سے اپنا بیان جاری کیا ہے۔ جس میں واضح ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی براہ راست تجارت نہیں، بلکہ یہ پاکستانی غذائی اشیاء خلیجی ممالک کی مارکیٹ سے ذاتی حیثیت سے سپلائی کی گئی ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان اس وقت کوئی سفارتی اور سیاسی تعلقات نہیں ہیں اور پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی قسم کے تعلقات نہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہیں کہ دونوں ممالک براہ راست تجارت کریں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خالد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی غذائی اشیاء کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کی ہے، جس میں کھجور، خشک میوہ جات اور بعض مسالے بھی شامل ہیں۔ مشرف کے بعد عمران دور حکومت میں اسرائیل کے ساتھ پاکستانی رابطوں کی خبریں زیادہ سامنے آئیں اور یہ خبریں بھی اسرائیلی میڈیا نے ہی دیں۔ گذشتہ 75 برسوں میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ عمران حکومت نے ہی اسرائیل کے لئے اسی فشیل بن خالد کو پہلا پاسپورٹ جاری کیا۔ انہوں 2016ء میں اس وقت کی نواز حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کو بطور یہودی پاکستان کا پاسپورٹ جاری کیا جائے، لیکن اس وقت کی حکومت نے فیصلہ نہیں کیا تھا اور پھر عمران حکومت نے 2019ء ہی میں انہیں بطور یہودی پاسپورٹ جاری کیا اور پاکستانی پاسپورٹ کو اسرائیل جانے کیلئے باقاعدہ Valid قرار دیا۔ جس کے تحت وہ اسرائیل بھی جاچکے ہیں۔
گذشتہ سال عمران دور حکومت میں ہی بعض پاکستانی نژاد شہریوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ دورے کے شرکاء نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا بھی دورہ کیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین اس پر ردعمل میں کہتے ہیں کہ پاکستانی یہودی جس کو عمران خان نے یہودی رجسٹر کرکے پھر قانونی طور پر اس کو پاسپورٹ جاری کرکے اسرائیل بھیجا تھا، وہ شخص دبئی سے اسرائیل کے ساتھ ذاتی طور پر تجارت کر رہا ہے۔ عمران دور حکومت میں نو نومبر 2018ء میں اسرائیلی صحافی نے ثبوت کے ساتھ ٹویٹ کیا تھا کہ تل ابیب سے پاکستان جہاز آیا۔ نومبر 2020ء میں اسرائیلی میڈیا نے ہی یہ خبر دی تھی کہ عمران خان کے ساتھی ذلفی بخاری نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا ہے، اس رپورٹ کی بعد میں ذلفی بخاری نے تردید کی تھی۔ فشیل نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان غذائی اشیاء کی تفصیلات شیئر کیں۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔
فشیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی تاجروں سے دبئی اور جرمنی میں غذائی اشیاء کی نمائشوں پر کئی بار ملاقاتیں کیں اور انہیں اس کی خریداری پر قائل کیا۔ابتدائی طور پر خشک میوہ جات اور مسالے بھجوائے گئے ہیں، جو یروشلم اور حیفہ کے بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ امریکی یہودی کانگریس کا کہنا ہے کہ پاکستانی اشیا دبئی میں ایک فیسٹیول میں نمائش کے دوران موجود تھی، جس سے اسرائیلی اور پاکستانی تاجروں نے معاہدوں اور ڈیل کو کامیاب ہونے میں مدد کی اور پاکستانی اشیا بذریعہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے اسرائیل بھیجی جا سکی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء علی محمد خان نے کہا کہ کل سے اسرائیل کیساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے خبروں کی وزیراعظم شہباز شریف بالخصوص فضل الرحمن صاحب وضاحت دیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا و تعلقات قائم کرنا اس معاملہ پر بانی پاکستان کے موقف کی خلاف ورزی ہے، مسئلہ فلسطین کے حل و مسجد اقصیٰ کی آزادی تک اسکی کوئی گنجائش نہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے بھی پریس کانفرنس میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان اور اسرائیلی حکام کے درمیان بات چیت کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ تصدیق دونوں جانب سے کبھی نہیں کی گئی۔ ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تھیں۔ امریکی یہودی کانگریس کے بیان کے مطابق 2005ء میں مشرف دور حکومت میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور اقتصادی پیش رفت ہوئی تھی، اٹھارہ سال قبل اس اقدام کی بدولت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت پر قدغن لگانے والے لائسنس ختم کر دیئے گئے تھے، 12 ستمبر 2005ء کو اسرائیل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی تاجر برادری کے لئے پاکستان سے اشیاء کے درآمدی لائسنس کو ختم کر دیا گیا ہے، یہ اقدام اسرائیل کے اس وقت کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سیلفان شالوم اور پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کے درمیان یکم ستمبر 2005ء کو ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا، دونوں ممالک کے درمیان یہ پہلا اعلانیہ سیاسی رابطہ تھا۔
حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل نے ایشیاء کے متعدد ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر توجہ دی ہے، جن میں بھارت اور چین جیسی بڑی منڈیاں بھی شامل ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں اسرائیل کے کئی مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی حجم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے سیاسی معاہدے پر دستخط کے بعد ان تعلقات میں مزید گرمجوشی دیکھی جا رہی ہے۔ سابق سفیر آصف درانی کے مطابق57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ بی بی سی کے مطابق فشل کا تعلق پاکستانی کی کوشر فوڈ انڈسٹری سے ہے۔ کوشر فوڈ یہودی مذہب کے عقائد کے مطابق تیار کردہ خوراک کو کہا جاتا ہے، جیسے مسلمان حلال کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔