سیاسیات- ایران کے اسرائیل پر براہِ راست حملے کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کی ان بڑی طاقتوں کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو متاثر کر سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے دو حریف ممالک میں کشیدگی اس وقت شدید ہو گئی جب اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر مبینہ حملہ کیا۔ اس حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل اور ڈرون داغے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایران کے 99 فی صد میزائل اور ڈرون تباہ کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے حملے کا جواب دے گا۔
اسرائیل کی جانب سے اس اعلان کے بعد تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ تنازع شدت اختیار کرسکتا ہے۔ اسرائیل کا اگر کوئی ایسا ردِ عمل آیا جو ایران کے لیے ناقابل قبول ہوا تو جنگ کا دائرہ پھیل سکتا ہے۔
پاکستان نے اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے دوست ممالک کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کا ردِ عمل بہت محتاط اور متوازن تھا۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ وہ عرب ممالک سے آگے بڑھ کر کوئی مؤقف اختیار کرے۔
دفاعی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ اسلام آباد نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے پر کہا تھا کہ اس کا ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ ایران کے جوابی حملے پر اسلام آباد نے مؤقف میں کچھ تبدیلی کی کہ دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے آگے نہیں نکل سکتا کیوں کہ یہ بہت عجیب ہوگا کہ دیگر مسلم ممالک کا ردِ عمل سخت نہ ہو اور پاکستان جارحانہ مؤقف اپنائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایران کا پڑوسی ہے۔ ان کے بقول ماضی کی طرح اسلام آباد کو لالچ یا دھمکی سے ایران کے خلاف پوزیشن لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی موجودہ حالات میں اسلام آباد تہران کے تعلقات متاثر ہوں گے۔