اپریل 22, 2025

فلسطینیوں کے لیے مجلس اتحاد امت پلیٹ فارم کا اعلان

سیاسیات۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پیر کو ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 27 اپریل کو اسی پلیٹ فارم سے لاہور میں جلسہ عام منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ’تمام جماعتیں‘ شریک ہو رہی ہیں۔

لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر منصورہ میں امیر جماعت اسلامی اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو مینار پاکستان پر بہت بڑا جلسہ ہوگا جس میں مذہبی جماعتیں شریک ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک بھر میں ’ایک بیداری کی تحریک‘ چلائیں گے جس کے نتیجے میں قوم اور حکمران یکسو ہوکر فلسطینیوں کی حمایت کر سکیں گے۔‘

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ ’آج مسلم دنیا جغرافیائی طور پر منقسم ہے اور 57 اسلامی ممالک اس وقت موجود ہیں تو فلسطین کے اندر کے مسلمانوں کی پوزیشن اور ہے، اس کی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں ان کے فرض کی نوعیت اور ہے اور دور کے ممالک کی ذمہ داری اور ہے۔

’تو ایسے میں اگر کوئی مالی لحاظ سے شریک ہوتا ہے یا سیاسی طور پر تو وہ سب کے سب ایک ہی جہاد کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’آج کی گفتگو سے یہ بات اصولی طور پر طے ہوئی ہے کہ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جن معاملات پر اشتراک عمل ہو سکتا ہے، جس پر گفتگو ہو سکتی ہے، متفقہ موقف پیش کیا جا سکتا ہے اور اگر کچھ قدم مل کر اٹھائے جا سکتے ہوں تو اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، یہی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی پالیسی ہے۔‘

نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پوری امت کا اور انسانیت کا فلسطین ہے، غزہ ہے، امریکہ اور اسرائیل کا جو ظلم ہے اس پر ہمارا مکمل اتفاق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنے موقف کو بھی واضح کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، ظالموں کی مذمت کریں چاہیے وہ امریکہ ہو یا اسرائیل۔‘

انہوں نے بتایا کہ فضل الرحمٰن سے ملاقات میں عمومی نوعیت کے مضوعات بشمول مہنگائی پر بھی گفتگو ہوئی اور اسے کم کرنے کے معاملے پر اتفاق ہوا۔ آئندہ بھی ان معاملات پر گفتگو اور ملاقاتیں ہوتی رہیں گی جن میں عملی اقدامات طے کیے جا سکتے ہیں۔

نیوز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’لفظ جہاد انتہائی مقدس ہے جو کہ قرآن اور احادیث کی اصطلاح ہے لیکن جہاد کا مرحلہ جب بھی آتا ہے تو وہ نماز کی طرح نہیں ہے کہ نہ اس کا وقت تبدیل ہو سکتا ہے نہ طریقہ، وہ تدبیر کے تابع ہوتا ہے کہ جب جہاد کیا جائے تو کیا تبدیر اختیار کی جائے۔‘

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حالیہ بیان میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ امت مسلمہ کی نمائندگی نہیں کرتا، اس میں انتہائی کمزوریاں ہیں۔‘

ہم سمجھتے ہیں بڑا واضح موقف اسلامی دنیا کا ہونا چاہیے اور اگر امت مسلمہ کو اگر شکایت ہے تو ان کے حکمرانوں کے رویے اور غفلت کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنا حقیقی فرض کیوں ادا نہیں کر رہے۔‘

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three − 2 =