نومبر 24, 2024

’عمر میڈیا‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہےِ؟

سیاسیات-تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے میڈیا ونگ ’عمر میڈیا‘ نے سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

اس پیش رفت کا ٹی ٹی پی کی حالیہ بڑھتی کارروائیوں میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس میڈیا ونگ کا نام افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ میڈیا گروپ ٹی ٹی پی کی نام نہاد ’وزارتِ اطلاعات و نشریات‘ کے ماتحت کام کرتا ہے۔

گذشتہ روز اس میڈیا ونگ کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ عمر میڈیا کو فالو کرنے والے جو حضرات مضامین لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ مجلے کے لیے اُردو زبان میں مضامین لکھ کر اسے ایک مخصوص آئی ڈی پر ارسال کریں۔

’عمر میڈیا‘ کی جانب سے آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ مواد اُردو اور پشتو زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے اور پھر اسے انگریزی، دری، فارسی اور عربی میں ترجمہ کر کے دوبارہ شائع کیا جاتا ہے۔ اس میں متعدد ویڈیو سیریز، روزانہ کا ریڈیو براڈکاسٹ، ہفتے میں دو بار نشر ہونے والی حالاتِ حاضرہ کی پوڈکاسٹ، ایک اردو میگزین اور ٹی ٹی پی سے جانب سے روزانہ کے حملوں اور سیاست کے حوالے سے بیانات کی اشاعت شامل ہے۔

یہ مواد عمر میڈیا کی ویب سائٹ پر شائع کیا جاتا ہے اور اسے گروپ کے مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسی پیغام رساں ایپس کے ذریعے پوسٹ کیا جاتا ہے۔

عمر میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے افراد عموماً افغان اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اور ٹی ٹی پی کے مواد کی وسیع پیمانے پر اشاعت کو یقینی بناتے ہیں۔

ایک سینیئر پاکستانی صحافی مشتاق یوسفزئی نے ایک حالیہ ٹاک شو میں انکشاف کیا ہے کہ عمر میڈیا کے لیے پڑھے لکھے نوجوان مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیں۔

عمر میڈیا کی جانب سے ٹیلی گرام اور واٹس ایپ پر چینل بنائے گئے ہیں اور متعدد پاکستانی اور افغان صحافی ان چینلز کو فالو کرتے ہیں۔

یہ افغان طالبان کی اس حکمتِ عملی سے مطابقت رکھتی ہے جو ان کی جانب سے اپنے دورِ عروج پر اپنائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ دیگر شدت پسند تنظیمیں جیسا کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کی ایسی میڈیا پالیسی نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی کے ’عمر میڈیا‘ کی واپسی

عمر میڈیا کی واپسی اور اس کے بعد مواد کے پھیلاؤ کو تین مرحلوں میں پرکھا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے مرحلے میں ان کی جانب سے دیگر گروپس کے ساتھ الحاق کیا گیا، اس کے بعد تنظیم کا ایک مرکزی انتظامی ڈھانچہ بنایا گیا اور تیسرے مرحلے میں جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو افغانستان کی جیلوں میں موجود ٹی ٹی پی والوں کو رہا کیا گیا جس سے ٹی ٹی پی مضبوط ہوئی۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے دوسرے گروپس سے الحاق کرنے کا مرحلہ جولائی 2020 میں شروع ہوا۔ اس دوران 22 شدت پسند گروہوں نے اس تنظیم میں شمولیت حاصل کی جن میں سابق سپلنٹر گروپس، 11/9 کے بعد پاکستان میں القاعدہ کے حمایتی گروہ اور افراد اور مقامی شدت پسند گروہ شامل ہیں۔

ان میں سے تین اہم گروپس میں جماعت الاحرار، حزب الاحرار اور ایک القاعدہ کا حمایتی گروہ جس کی سربراہی چوہدری منیب الرحمان جٹ یا کمانڈر منیب کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ایک سینیئر کمانڈر عمر خالد خراسانی نے اگست 2014 میں جماعت الاحرار کی بنیاد رکھی تھی۔ جماعت الاحرار سے سنہ 2017 میں علیحدہ ہونے والوں نے مل کر تنظیم حزب الحرار بنائی تھی۔ ان دونوں کی علیحدہ میڈیا برانچ تھی جو اتنی ہی متحرک تھی۔ اس لیے جب 2020 میں ان گروپس کا الحاق ہوا تو عمر میڈیا نے باصلاحیت اہلکاروں کو تنظیم میں شامل کیا۔

اس کی ایک اہم مثال مولانا خالد قریشی ہیں جو اس سے قبل حزب الاحرار کے ساتھ منسلک تھے اور اب عمر میڈیا کے رکن ہیں۔

دوسری جانب، کمانڈر منیب کی سربراہی میں القاعدہ کے حمایت یافتہ دھڑے کی شمولیت نے بھی عمر میڈیا کی صلاحیت میں اضافہ کیا۔

یہ دھڑا استاد احمد فاروق سے منسلک ہے جو پاکستان میں القاعدہ میڈیا کے اہم رکن تھے۔ فاروق القاعدہ میڈیا کے بانی اراکین میں سے تھے، جنھوں نے یہاں بھرتیوں اور پروپیگینڈا برانچ کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے القاعدہ کے مرکزی میڈیا یونٹ کے اُردو ونگ کی بنیاد رکھی تھی جسے ’السحاب‘ کہا جاتا ہے۔

اس گروپ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور اُردو بولنے والے اراکین کی بڑی تعداد شامل جس سے عمر میڈیا کے کام کی کوالٹی میں بھی بہتری آئی ہے۔

عمر میڈیا کی پروڈکشن کوالٹی وقت کے ساتھ القاعدہ کی الساحب اردو کے مواد کی کوالٹی اور پریزینٹیشن جیسی ہو گئی ہے۔

عمر میڈیا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیوں میں بھی اُردو کی کوالٹی بہتر ہوئی ہے اور یہ ٹی ٹی پی کی اہم کامیابی ہے اور اس کے ذریعے وہ آبادی کے ایک بڑے حصے تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

شاید یہ بہتری لانے کی وجہ سے ہی ٹی ٹی پی کی جانب سے منیب کو دو جنوری 2023 کو عمر میڈیا کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ٹی ٹی پی کے پانچ رکنی میڈیا کمیشن کا بھی حصہ ہیں جو ’وزیر‘ مفتی غفران کی ’وزارتِ اطلاعات نشریات‘ کو چلانے میں مدد کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ عمر میڈیا کو اگست 2021 میں جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کے اراکین کی رہائی سے بھی فائدہ ہوا ہے۔

اس حوالے ایک دلچسپ کیس دراصل عمر میڈیا کے سابق سربراہ اور گروپ کے مرکزی ترجمان مفتی خالد بلتی جنھیں امریکہ کی جانب سے چلائے جانے والے بگرام فوجی اڈے میں سنہ 2015 کے آغاز میں قید کیا گیا تھا۔

رہائی کے فوراً بعد ان کی عمر میڈیا میں واپسی ہو گئی تھی۔ نو جنوری 2022 کو ان کی ہلاکت کے باوجود میڈیا گروپ کی جانب سے جون 2022 میں انتہائی پیچیدہ ویڈیو ریلیز کی تھی جو پانچ زبانوں میں تھی۔

اس کے علاوہ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سنہ 2021 میں ٹی ٹی پی نے ایک مرکزی ڈھانچہ بنایا تھا۔

تنظیم کی جانب سے متعدد ایسی ’وزارتیں‘ بنائی ہیں جو اہم امور کی آزادانہ طور پر نگرانی کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کا عمر میڈیا اب نام نہاد ’وزارتِ اطلاعات و نشریات‘ کے تحت چلایا جاتا ہے جس کے صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی بنیاد موجود ہے۔ اس لیے اس میں کام کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

تاریخ کیا بتاتی ہے؟

عمر میڈیا کے بانی اراکین میں شامل شمشیر نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ گروپ نے سنہ 2003 کے اواخر میں کام کرنا شروع کیا تھا لیکن پہلے دو سال تک یہ گمنام تھا۔ ٹی ٹی پی کے سینیئر کمانڈر قاری حسین احمد نے سنہ 2006 میں اسے ’عمر سٹوڈیو‘ کا نام دیا تھا اور ایسا انھوں نے افغان طالبان کے اہم رہنما ملا داد اللہ کے کہنے پر کیا تھا۔ سنہ 2010 میں بالآخر اسے ’عمر میڈیا‘ کا نام دیا گیا تھا۔

شمشیر کے مطابق اس میڈیا پلیٹ فارم کو بنانے کی بنیادی وجہ دراصل افغان طالبان کی قبائل میں مقبولیت میں اضافہ کرنا تھا خاص طور پر پاکستان کے جنوبی وزیرستان میں۔ انھوں نے کہا کہ یہ افغان طالبان کے لیے اہم سال تھے کیونکہ اس میں ایک متحرک میڈیا آپریشن کی کمی تھی۔ گروہ آغاز میں اپنی تشہیر کے لیے صرف پمفلٹس اور ٹیکسٹ مواد پر انحصار کرتا تھا۔

شمشیر کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان رہنما جن میں داد اللہ بھی شامل ہیں، موجودہ سپریم رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے شروع کے دنوں میں جنوبی وزیرِستان میں عمر میڈیا کے مراکز کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔

عمر سٹوڈیو نے سنہ 2006 میں آپریشنز کا آغاز کیا تھا اور لشکرِ عمر سے متعلق ویڈیو سیریز بنائی تھی۔ ان قسطوں میں جنوبی وزیرستان کے خودکش حملہ آوروں کے بیانات بھی شامل ہیں جنھوں نے افغانستان میں جا کر خودکش حملے کیے اور ایسے قبائلی جنگجوؤں کی کہانی بھی جو افغانستان میں طالبان کے لیے لڑنے گئے۔

عمر سٹوڈیو نے اگلے سال مزید دو ویڈیوز ریلیز کیں۔ ایک ویڈیو میں داد اللہ کا دورہ جنوبی وزیرستان بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسری ویڈیو کا نام ’عبداللہ محسود کی موت کا بدلہ‘ ہے جس میں جنوبی وزیرستان میں یرغمال بنائے گئے پاکستانی فوجیوں کی فوٹیج بھی ہے جن میں ان کا سر بھی قلم کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹی ٹی پی میں دیگر میڈیا ونگ بھی تھے۔ ان میں درہ آدم خیل میں ’منصور سٹوڈیو‘، مالاکنڈ ڈویژن میں ’فتح سٹوڈیو‘ اور مہمند ایجنسی میں ’احیائے خلافت سٹوڈیو‘ شامل ہیں۔ ان سٹوڈیوز میں حملوں کی ویڈیوز اور مقامی رہنماؤں کے بیانات بھی شامل ہیں۔

یہ مقامی برانچز سنہ 2010 کے اواخر میں بند کر دی گئی تھیں اور تمام میڈیا آپریشن عمر میڈیا کو سونپ دیے گئے تھے۔ تاہم مقامی برانچز نے تب بھی پروڈکشن کے حوالے سے آزادانہ طور پر کام جاری رکھا تھا۔ یہ اس وقت عمر میڈیا کی جانب سے شائع کردہ مواد کی کوالٹی میں تبدیلی سے بھی عیاں تھا تاہم سنہ 2014 میں ٹی ٹی پی کے میڈیا کمیشن کے قیام کے بعد سے کوالٹی میں یہ تبدیلی ختم ہو گئی تھی۔

کمیشن کو ایک مرکزی میڈیا آپریشن بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جو انفرادی نقصان کے باوجود متحرک رہے۔ اس لیے اس میڈیا کمیشن کے سربراہ کو مرکزی ترجمان بھی قرار دیا گیا تھا اور اسے فرضی نام ’محمد خراسانی‘ دیا گیا تھا۔

مرکزی میڈیا کمیشن بنانے کا فیصلہ ٹی ٹی پی کے لیے ایک اچھی میڈیا سٹریٹجی ثابت ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کمیشن کے سربراہ مفتی خالد بلتی کی سنہ 2015 میں امریکی اور افغان فوج کے ہاتھوں گرفتاری نے بھی ’محمد خراسانی‘ کے کام کو متاثر نہیں کیا تھا۔

عمر میڈیا کیا مواد بناتا ہے؟

عمر میڈیا کی جانب سے مختلف اقسام کا مواد بنایا جاتا ہے لیکن ویڈیو اس میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

دسمبر 2013 میں میڈیا گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سات سالوں کے کام کے دوران 65 ویڈیوز بنائی ہیں۔ گذشتہ تین سالوں کے دوران عمر میڈیا نے 64 ویڈیوز بنائی اور ان میں سے اکثر اچھی کوالٹی کی ہیں۔

ان کی جانب سے گذشتہ دنوں پانچ ویڈیوز پر مشتمل نئی ویڈیو سیریز نکالی گئی ہے جن کے نام ’زیرِ نظر‘، ’دعوتِ جہاد‘، ’میں جہاد کا مسافر‘، ’تیار ہیں ہم‘ اور ’معرکے ہیں تیز تر‘ ہیں۔

ٹریننگ ویڈیوز اور عام حملوں کے علاوہ یہ سیریز سیاسی پیغامات بھی دیتی ہے جو پاکستان کے ریاستی نظام پر تنقید کرتے ہیں، اس میں شدت پسندوں کی روز مرہ کی زندگیوں کی فوٹیج اور اہم کمانڈرز کے پیغامات شامل ہوتے ہیں جو نوجوانوں کو شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔

عمر میڈیا کی جانب سے مزید دو ویڈیو سیریز جاری کی گئی تھیں۔ ان میں اب ابطالِ امت یعنی ’قوم کے ہیروز‘ کے نام سے سیریز بھی شامل ہے جو دسمبر 2013 میں لانچ کی گئی تھی اور اب تک اس کی چھ قسطیں نکالی گئی ہیں جن میں تین 2022 میں شائع کی گئی تھیں۔

اس کی تازہ ترین پروڈکشنز کی کوالٹی میں واضح بہتری آئی ہے۔ ایسی ہی ایک سیریز جون 2021 میں لانچ کی گئی تھی جو ٹی ٹی پی کے یتیم بچوں کی زندگی کے بارے میں بتاتی ہے اور ان کی حمایت کرنے کا کہتی ہے۔

عمر میڈیا نے اس کے علاوہ بھی اکا دکا ویڈیوز ریلیز کی ہیں۔

ستمبر 2022 میں عمر میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’پاسون‘ یعنی انقلاب کے نام ہفتے میں دو بار پوڈکاسٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں اہم سیاسی پیش رفت کے حوالے سے ٹی ٹی پی کے مؤقف کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔

اس میں اہم ٹی ٹی پی اہلکاروں کے پشتو اور اردو میں انٹرویو کیے جاتے ہیں۔ اس میں ماہانہ اور ہفتے میں دو بار سکیورٹی فوسرز کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں کا خلاصہ بھی ہوتا ہے۔

عمر میڈیا کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر عمر ریڈیو سے ریڈیو نشریات بھی کی جاتی ہیں جس پر مذہبی خطبے، کمنٹری اور قیادت کے انٹرویوز شامل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ عمر میڈیا کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کسی پیش رفت پر بیانات بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں حملوں کے حوالے سے مختصر دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور انھیں ترجمان محمد خراسانی نے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے 2022 میں 300 سے زیادہ بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تک 70 تفصیلی بیانات بھی جاری کیے گئے ہیں جن میں مقامی، اس خطے میں اور بین القوامی طور پر ہونے والی کسی بھی پیش رفت پر بات کی گئی۔

عمر میڈیا نے نومبر 2016 سے ’تحریک طالبان‘ کے نام سے ہر سہ ماہی میں ایک میگزین شائع کیا جاتا ہے۔ یہ میگزین اردو میں شائع کیے جاتے ہیں تاہم آغاز میں اس میں پشتو میں لکھی تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنوری 2023 میں میگزین نے اعلان کیا تھا کہ اب سے وہ یہ میگزین ماہانہ شائع کریں گے۔

عمر میڈیا کی جانب سے سینیئر اہلکاروں کی کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × 4 =