سیاسیات۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ریاست سے تصادم نہیں مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں مگر ہمیں دھکیلا جارہا ہے، حکومت معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے،
چارسدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ 2019 میں ایک نیا نظام ہمیں دینا چاہا وہ صرف ایک معاہدہ ہے، معاہدے کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ہم نے ان کو 34 شقوں سے دستبردار کرایا، بل پر تمام جماعتیں متفق ہوئیں بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوا، بل پر تمام جماعتیں متفق ہوئیں بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوا، دیگر بلوں پر دستخط کیے گئے ایک اس بل کو کیوں واپس بھجوایا گیا؟ ہر مدرسہ آزاد ہے کہ کہیں بھی رجسٹریشن کرائے تو آج کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ ہم ریاست سے تصادم نہیں چاہتے ہیں، مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ اس ڈرافٹ پر سب کا اتفاق ہے نیا شوشا نہ چھوڑا جائے، اتفاق کیا گیا تھا کہ مدارس جہاں چاہیں رجسٹریشن کراسکیں گے، صدر مملکت دیگر ایکٹ پر دستخط کرسکتے ہیں تو اس بل پر کیوں نہیں؟ وہ مدرسوں کو ایک ایکٹ اورمعاہدے سے وابستہ کررہے ہیں، ہم مدارس کو قانون سے وابستہ کروا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ہمیں اس وقت حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں، ان کی تجویز قبول کرنا تو دور کی بات چمٹے سے بھی پکڑنے پر تیار نہیں، مدارس ہم بچا لیں گے حکمران ملک بچانےکیلئے فکر مند ہوجائیں، ملک کے ایک ایک مدرسے کی جنگ لڑ رہے ہيں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیوں مدارس کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟ مدارس نے آپ کو تسلیم کیا ، ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کو کیوں تکلیف ہے کہ علمائےکرام متوازن سیاست کررہے ہیں، ہم زیادہ ملک کے وفادار ہیں اور زیادہ فکرمند ہیں، کہا جارہا ہے ان کا یہ مسئلہ نہیں ہے بس دینی مدرسے کنٹرول کرو، مدارس کوکنٹرول کریں کیوں؟ اس لیے کہ ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے،آئی ایم ایف چاہتا ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھاکہ مدارس کو کنٹرول کریں کیوں؟ امریکہ اور مغرب چاہتا ہے، ہمیں بتائیں، قوم کے سامنے وہ معاہدے رکھیں انہوں نے کیا شرائط رکھے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کل لائحہ عمل کا اعلان کرنے جارہے تھے تو مفتی تقی عثمانی کے کہنے پر مؤخر کیا، مفتی تقی عثمانی نے کہا وفاق اور تنظیمات المدارس کا اجلاس 17 دسمبر کو بلایا ہے، علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، علما کے مقابلے پرعلما کو لایا جارہا ہے۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کے الٹی میٹم کے بعد مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات سے متعلق حکومتی اجلاس ہوا جس میں علما کرام کا مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت ڈائریکٹریٹ ریلیجیس ایجوکیشن کے ساتھ ہی منسلک رکھنے پر اتفاق کیا۔
علامہ طاہر اشرفی نے کہا ممکن ہے سیاست کے میدان میں کسی کے پاس افرادی قوت زیادہ ہو لیکن مدارس کے میدان میں لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت اس فورم کے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ حکومت کو اگر یہ معاملہ درپیش ہے کہ وہ 10 ہزار بندہ لے آئیں گے تو یہاں بیٹھے علما کے اسلام آباد میں اتنے مدارس ہیں کہ پچیس تیس ہزار بندہ لے آئیں، تعلیم کو تعلیم اور سیایست کو سیاست کے میدان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔