ستمبر 3, 2024

سی پیک سمیت تمام بڑے منصوبوں کا انتظام فوج کے حوالے

سیاسیات- پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے بعد قومی اسمبلی میں داخلہ امور کی قائمہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی نے پیر کو بتایا ہے کہ ’سی پیک کی سکیورٹی کے علاوہ چار بڑے منصوبوں کا انتظام بھی پاکستان فوج نے سنبھال لیا ہے۔‘

سیکرٹری داخلہ نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ ’ان منصوبوں میں دیامر بھاشا، داسو کے منصوبے بھی شامل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’داخلی سکیورٹی کے معاملات پر اب مشکل وقت چل رہا ہے تھریٹس کے حوالے سے آئی بی ایم آئی، آیی ایس آئی الرٹس بروقت آتے ہیں۔ جہاں سے درخواست وزارت داخلہ کے پاس آتی ہے ایف سی کی سیکیورٹی لگا دی جاتی ہے۔‘

قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا پہلا اجلاس پیر کو خرم شہزاد نواز کی سربراہی میں پیر کے روز پارلیمنٹ میں ہوا جس میں سیکرٹری داخلہ سمیت وزارت داخلہ کے تمام اہم اداروں کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی۔

اس کے علاوہ ایف سی نارتھ، ساوتھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب سندھ رینجرز کے سربراہان نے بھی شرکت کر کے سرحدی سکیورٹی معاملات پر بریفنگ دی۔

ایف سی نارتھ حکام نے افغانستان کے ساتھ سرحدی سکیورٹی پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ ’سمگلنگ کے پیش نظر انگور اڈا بارڈر اس وقت ہر قسم کی اشیا ترسیل کے لیے بند ہے۔‘

ایف سی بلوچستان حکام نے کمیٹی بریفنگ میں بتایا کہ ’ایف سی بلوچستان نے رات کی تاریکی کے آپریشنز میں نہ صرف مہارت حاصل کی ہے بلکہ ژوب کے علاقے میں آپریشنز بھی کیے ہیں۔‘

بریگیڈیئر توحید ڈی آئی جی ایف سی ساوتھ نے بتایا کہ ’جنوبی بلوچستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری ہماری ہے جہاں ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد ملتی ہے۔

’ان علاقوں میں زیادہ تر کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز کیے جاتے ہیں۔‘

سرحدی باڑ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’جنوب میں 823 کلومیٹر سرحدی باڑ ہے جس میں سے ایران کے ساتھ آٹھ فیصد جبکہ افغانستان کے ساتھ تین فیصد باڑ ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔‘

پنجاب رینجرز سے بریگیڈیئر آصف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب رینجرز ہیڈ مرالہ سے لے کر منتھر تک مشرقی سرحد کی سکیورٹی کو دیکھتے ہیں۔

‘پنجاب رینجرز نے سنہ 2017 سے اب تک 822 افغانوں کو حراست میں لیا ہے۔ جبکہ ایک شخص کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔ جبکہ 667 پاکستانی ہیں۔‘

اجلاس کے دوران ڈی جی سندھ رینجرز نے سکیورٹی حالات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’15 فیصد فورس اندرون سندھ، 32 فیصد سرحدوں جبکہ 53 فیصد کراچی کے لیے مختص ہے۔‘

ان کے مطابق: ’سندھ حکومت نے درخواست کی تو تین ونگز کو کچے کے علاقے میں آپریشنز کے لیے تعینات کیا ہے۔‘

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twelve − 10 =