سیاسیات۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی نون لیگی حکومت کیخلاف شکایات کے باوجود صدر آصف علی زرداری موجودہ نظام کے استحکام کے بڑے ضامنوں میں سے ایک ہیں۔
بلاول بھٹو کا نون لیگ اور شہباز حکومت کے کیخلاف حالیہ اظہار ناراضی اگرچہ شہ سرخیوں کا حصہ بنی لیکن یہ پیپلز پارٹی کی حمایت سے قائم حکومت کیلئے خطرہ نہیں۔
بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے تمام سرکردہ رہنما جانتے ہیں کہ نون لیگ کیخلاف شکایات کے باوجود، پارٹی شہباز حکومت کی حمایت ختم نہیں کرے گی، حالانکہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ موجودہ نظام کے تمام اہم لوگوں کو اس بات کا ادارک ہے کہ ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کیلئے صدر زرداری کی سوچ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بتایا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے ایک پیج پر ہیں۔ نظام کے استحکام اور ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے کیے گئے تمام اقدامات کیلئے یہ تینوں کھلاڑی متحد ہو کر کام کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پیپل پارٹی حکومت کی قانون سازی سمیت تمام اہم پالیسیوں کی حامی رہی ہے، اور اس کے علاوہ ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) کے متعین کردہ اقتصادی ایجنڈے کی بھی حامی ہے۔
ایک ذریعے کے مطابق، ایس آئی ایف سی کے کچھ فیصلوں کے حوالے سے سندھ سے پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کو تحفظات تھے لیکن صدر زرداری نے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو۔ چند روز قبل بلاول بھٹو نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) پر پیپلز پارٹی کیساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔
کراچی میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران بلاول کا کہنا تھا کہ حقیقی سیاست احترام پر مبنی ہوتی ہے اور حکمران اتحاد کو اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنا چاہئے۔ مرکز اور پنجاب میں نون لیگ کی حکومتوں کے رویے پر پیپلز پارٹی اپنی ناراضی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ نون لیگ بالخصوص پنجاب میں مریم نواز کی حکومت اُس معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہی جو حکومت سازی کے وقت دونوں جماعتوں کے درمیان طے پایا تھا۔
نون لیگ کے کچھ سینئر رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ تاحال پورا نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے پنجاب میں سیاسی جگہ دی جائے گی اور پارٹی کو ان اضلاع اور تحصیلوں میں اپنی پسند کے بیوروکریٹس اور پولیس اہلکار تعینات کرنے دیے جائیں گے جہاں پیپلز پارٹی نے 8 فروری کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا اصرار ہے کہ وہ سول بیوروکریسی کی تقرریوں میں اپنی پارٹی سمیت کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت قبول نہیں کریں گی۔