سیاسیات-پاکستان میں وسیع پیمانے پر بجلی کے بریک ڈاؤن کے باعث ملک بھر میں گذشتہ دو روز سے معمولات زندگی رک گئے اور صنعتیں بھی بند رہیں۔
بجلی کے اس بریک ڈاؤن پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کی جانب سے عوام سے معذرت کرتے ہوئے بریک ڈاؤن کی وجہ جاننے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
جبکہ وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر خان نے پیر کو ملک بھر میں ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کے حوالے سے ’بیرونی مداخلت‘ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی نہ ہونے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں جن میں دارالحکومت اسلام آباد بھی شامل ہے جہاں وقفے وقفے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے آئیسکو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایمرجنسی شٹ ڈاؤن کے باعث جنریشن کو سسٹم کے ساتھ مکمل طور پر لنک ہونے کے لیے دو سے چار دن درکار ہوں گے۔‘
بجلی نہ ہونے کے باعث بازاروں میں کاروبار ٹھپ اور صنعتوں کی بندش سے ملک کو معاشی طور پر بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
تاجر برادری نے ملک بھر میں بجلی کی بندش پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پورے دن بجلی کی بندش ایسے وقت ہوئی جب ملک میں بڑے مالیاتی بحران کے درمیان خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملک بمشکل فیکٹریوں سے پیداوار لے رہا ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سیکریٹری اپٹما شاہد ستار کا کہنا ہے کہ ’ملک بھر میں بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے ایک دن میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو 70 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔‘
شاہد ستار نے کہا کہ ’بجلی بندش سے مجموعی طور پر ڈیڑھ سے دو ارب روپے کے آرڈرز متاثر ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن اس سے پہلے نہیں ہوا۔ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ منیجمنٹ کی ناکامی ہے۔ منیجمنٹ اچھی ہو تو اس طرح کے نقصان کا سامنا نہ ہو۔‘
انہوں نے ملکی معیشت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں زرمبادلہ کے بحران کے درمیان درآمد شدہ خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی کاروباری خسارے کا شکار ہے۔
شاہد ستار نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ آئندہ آنے والے ماہ میں ’ہمارے پاس خام مال موجود نہیں پھر چاہے بجلی ہو یا نہ ہو یا پھر گیس کی کمی کا سامنا ہو۔‘