سیاسیات۔ پاکستان کے ضلع اٹک میں زیرِ زمین پانی کی تیزی سے کم ہوتی سطح کو بلند کرنے کے لیے رین ہارویسٹنگ سسٹم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس منصوبے کے تحت سالانہ لاکھوں لیٹر ضائع ہو جانے والے بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے گا۔
ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا منصوبہ ہے جو اٹک کے علاوہ کسی اور ضلع میں موجود نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فی الحال ضلع بھر کے 1200 سے زائد سرکاری سکولوں میں اس سسٹم کو مکمل طور پر فعال کر دیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت سکول کی چھتوں پر جمع ہونے والے بارش کے پانی کو پائپ کے ذریعے زمین میں نصب پلاسٹک کی ٹینکی میں منتقل کیا جاتا ہے۔
ان ٹینکیوں میں پہلے سے سینکڑوں چھوٹے سوراخ کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے پانی آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور یوں زیرِ زمین آبی ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔
راؤ عاطف کے مطابق گذشتہ دو سالوں کے دوران گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے باعث موسمِ بہار ہی میں درجہ حرارت 45 سے 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔
ان کے بقول اگر یہی رجحان جاری رہا تو مستقبل میں اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اٹک میں سالانہ 300 سے 400 ملی میٹر تک بارش ہوتی ہے مگر شہروں میں پختہ گلیاں اور سڑکیں ہونے کے باعث بارش کا پانی زیرِ زمین جذب ہونے کی بجائے بہہ کر ندی نالوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
’لیکن رین ہارویسٹنگ منصوبے کے تحت اب یہ پانی زمین میں جذب ہو کر آبی ذخائر کی بحالی میں مدد فراہم کرے گا، جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح میں بہتری آئے گی۔‘
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ سکولوں میں یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار رہا ہے، جس کے بعد اسے دیگر سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر تک توسیع دی جائے گی۔
ان کے مطابق تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے اس نظام کو لازمی قرار دیا جائے گا اور ان کے نقشہ جات کی منظوری بھی اسی نظام کی موجودگی سے مشروط کی جائے گی۔
علاوہ ازیں، ضلعے بھر میں شروع کی جانے والی تمام ترقیاتی سکیموں میں بھی رین ہارویسٹنگ سسٹم کو شامل کیا جائے گا۔
’رہائشی اور کمرشل بلڈنگز کے مالکان بھی اگر اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہیں تو ضلعی انتظامیہ سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ایک سرکاری سکول کے پرنسپل فدا حسین نے بتایا کہ یہ ایک انتہائی کم لاگت منصوبہ ہے، جسے ہم نے صرف ایک دن میں تیار کر لیا تھا۔
ان کے بقول، پلاسٹک پائپ اور پانی کی ٹینکی پر صرف 15 سے 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ ’اس منصوبے کو اس سے بھی کم لاگت میں فعال بنایا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ پانی کی پُرانی ٹینکی بھی اس مقصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔‘
محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کے ملازم محمد لطیف نے بتایا کہ اس نظام کو تیار کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے مل کر ایک دن سے بھی کم وقت میں یہ نظام فعال بنایا۔
منصوبے کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سکول کی چھت پر بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے موجود پرنالے کے ساتھ ایک پلاسٹک پائپ لگا دیا گیا، جبکہ پانی کی پلاسٹک ٹینکی میں سینکڑوں سوراخ کیے گئے اور اسے زمین میں گڑھا کھود کر نصب کر دیا گیا۔
بارش کا پانی چھت سے پائپ کے ذریعے اس ٹینکی میں پہنچتا ہے اور پھر سوراخوں کے ذریعے زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے بارش کا پانی پختہ زمین پر بہہ کر ضائع ہو جاتا تھا، لیکن اب یہ پانی زیرِ زمین جذب ہو کر آبی ذخائر کو تقویت دے رہا ہے۔